Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بھارت کا سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ: پاکستان کو نیا نوٹس جاری

 بھارت نے  پاکستان کو باضابطہ طور پر دوسرا نوٹس بھیجا ہے  جبکہ  پہلا نوٹس 25 جنوری 2023 کو بھیجا تھا جس میں   سندھ طاس معاہدے (Indus Waters ...

 بھارت نے  پاکستان کو باضابطہ طور پر دوسرا نوٹس بھیجا ہے  جبکہ  پہلا نوٹس 25 جنوری 2023 کو بھیجا تھا جس میں   سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) پر نظرثانی اور ترامیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ معاہدے کی موجودہ شقیں بدلتے ہوئے حالات، جیسے آبادی میں اضافہ، ماحولیاتی مسائل، اور صاف توانائی کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دوبارہ جائزے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے اس نوٹس میں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کو بھی بنیاد بنایا ہے جو بھارت کے مطابق معاہدے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔


یہ نوٹس جنوری 2023 میں بھیجے گئے پہلے نوٹس کے تسلسل میں ہے، جب بھارت نے پاکستان پر معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی اور مستقل عدم تعاون کا الزام لگایا تھا۔ اس حالیہ نوٹس میں بھارت نے دونوں حکومتوں کے درمیان مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ معاہدے کی شقوں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

یہ معاہدہ 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا، جس میں دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا تعین کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق بھارت کو مشرقی دریاؤں (بیاس، راوی، ستلج) کا اختیار حاصل ہے، جبکہ پاکستان مغربی دریاؤں (چناب، جہلم، سندھ) کا پانی استعمال کرتا ہے۔

اب تک یہ نوٹس عوامی سطح پر شائع نہیں کیا گیا، لیکن اسے دونوں ممالک کے سندھ طاس کمشنرز کے ذریعے پہنچایا گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ اقدام معاہدے سے متعلق جاری تنازعات اور عالمی بینک کی ثالثی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے​

پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ خاص طور پر راوی جیسا دریا جو کبھی پنجاب کی زندگی کا حصہ تھا، اب صنعتی فضلے اور سیوریج کا نالہ بن چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پانی کے بحران کو روکا جا سکے۔

پاکستان کے لیے ممکنہ اقدامات:
1. پانی کے ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر
نئے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ بارش اور دریائی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بھی مقامی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
2. آبی وسائل کا مؤثر انتظام اور اصلاحات
موجودہ نہری نظام کو بہتر بنانا اور پانی کی ترسیل میں ہونے والے ضیاع کو کم کرنا اہم ہے۔
واٹر مینجمنٹ سسٹم میں جدید ٹیکنالوجیز (جیسے ڈرون اور سینسرز) کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ پانی کا استعمال بہتر بنایا جا سکے۔
3. زراعت میں پانی کی بچت کے طریقے اپنانا
ڈریپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ کم پانی میں زیادہ پیداوار حاصل ہو۔
پانی زیادہ خرچ کرنے والی فصلوں (جیسے چاول اور گنا) کی جگہ کم پانی میں پیدا ہونے والی فصلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
4. شہری علاقوں میں واٹر ری سائیکلنگ
فیکٹریوں اور گھریلو سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کرنے کے لیے جدید پلانٹ لگائے جائیں تاکہ اسے زرعی مقاصد اور باغبانی میں استعمال کیا جا سکے۔
5. عوامی شعور بیدار کرنا
عوامی سطح پر پانی کی بچت اور مؤثر استعمال کے حوالے سے آگاہی مہمات چلانا اہم ہے۔
6. بھارت کے ساتھ پانی کے معاہدے کا دفاع اور نظرِثانی
بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حقوق کا دفاع اور عالمی فورمز پر پانی کے مسائل کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔
سفارتی سطح پر یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت معاہدے کے تحت پانی کے بہاؤ میں رخنہ نہ ڈالے۔
7. پانی کی قیمت مقرر کرنا
پانی کے استعمال پر مناسب قیمت مقرر کرنا تاکہ صارفین احتیاط سے پانی استعمال کریں۔
پاکستان کے پاس وقت کم ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی قلت مستقبل میں قومی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ موثر واٹر پالیسیز اور علاقائی تعاون اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

یہ اقدامات پاکستان کو نہ صرف پانی کی قلت سے نمٹنے میں مدد دیں گے بلکہ ماحولیاتی توازن اور زراعت میں بھی بہتری لا سکیں گے۔