پسرور سمیت ملک بھر میں بھکاریوں کی بھرمار: ایک لمحہ فکریہ اور عالمی تناظر

 پسرور میں بھیکاریوں کی بھرمار: ایک لمحہ فکر اور عالمی تناظر

"پسرور کے بازار میں بھیک مانگتا ایک شخص" "پسرور میں بھیکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد"

پسرور: شہر کی گلیوں اور بازاروں میں بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے نہ صرف مقامی لوگوں کے روزمرہ کے معمولات کو متاثر کیا ہے بلکہ  اس سے معاشرتی و اخلاقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

 ہر پانچ منٹ بعد ایک نیا بھیکاری کسی نہ کسی دوکان کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے، اور یہ منظر دیکھ کر دل کو افسوس ہوتا ہے کہ ایک وقت تھا جب پسرور کے لوگ آپس میں بھائی چارے اور مدد کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، لیکن آج مدد کرنے والے کم اور مدد مانگنے والے زیادہ ہو گئے ہیں۔


بھیک مانگنے والوں میں مرد، خواتین، بوڑھے، اور حتی کہ بچے بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ مختلف قسم کی کہانیاں سناتے ہیں، کسی کے پاس بیماری کا بہانہ ہے تو کوئی بے روزگاری کا شکوہ کر رہا ہے۔ ان کہانیوں کی سچائی یا جھوٹ پر یقین کرنا مشکل ہے، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ کہ بھیک مانگنے کا یہ رواج ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔

یہ مسئلہ صرف پسرور یا پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جانے لگا ہے۔ دیگر ممالک، خصوصاً مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک میں بھی پاکستانی بھکاریوں کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ ان ممالک میں مقیم پاکستانی باشندوں نے بھی اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے، جہاں بھیک مانگنے والے گروہ پاکستانی شہریوں کی حیثیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

کچھ ممالک میں تو اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کر لی ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس کا نوٹس لیا گیا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک میں پاکستانی بھکاریوں کی موجودگی پر سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بہتر مواقع فراہم کرے تاکہ وہ غیر قانونی طریقوں سے روزگار تلاش کرنے یا بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوں۔

یورپ میں بھی کچھ پاکستانی بھکاری گروہوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں، جو مختلف شہروں میں بھیک مانگ کر نہ صرف پاکستانی کمیونٹی کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستانی حکومت کے لیے باعث تشویش ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ معاشی بدحالی اور بے روزگاری کے مسائل کو حل کرنا ہوگا تاکہ لوگ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی شعور کو بیدار کرنا ہوگا تاکہ لوگ بھیک مانگنے کی بجائے محنت سے روزی کمانے کو ترجیح دیں۔

پسرور کے باسیوں کو بھی اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا اور بھیک مانگنے والوں کی مدد کرنے کے بجائے انہیں کام کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی ایک طویل المدتی منصوبہ بندی اور اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔


پیشہ ور بھکاریوں کو روکنے کے لیے پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کو متعدد اقدامات کرنے چاہییں:

  • قانونی چارہ جوئی: بھکاریوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، اور بھکاریوں کے منظم گروہوں کو توڑنے کے لیے تحقیقات کی جائیں۔
  • عوامی آگاہی مہمات: عوام کو بھکاریوں کی مدد کے بجائے چیریٹی اداروں یا حکومتی فلاحی سکیموں کی حمایت کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
  • پناہ گاہیں اور بحالی مراکز: حقیقی ضرورت مند افراد کے لیے پناہ گاہیں اور بحالی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ انہیں بہتر زندگی کی طرف راغب کیا جا سکے۔
  • معاشرتی فلاح و بہبود کے پروگرامز: حکومت غربت کے خاتمے کے لیے جامع فلاحی پروگرامز متعارف کرائے تاکہ لوگوں کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔
  • پولیس کا مؤثر نگرانی کا نظام: پولیس کو ایسی جگہوں پر زیادہ نگرانی کرنی چاہیے جہاں پیشہ ور بھکاریوں کی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
  • معلومات کا تبادلہ: مختلف شہروں اور اضلاع کے درمیان معلومات کا تبادلہ کیا جائے تاکہ بھکاریوں کے منظم گروہوں کی نشاندہی اور روک تھام کی جا سکے۔
  • یہ اقدامات نہ صرف بھکاریوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عوامی تحفظ کو بھی بہتر بناتے ہیں۔