Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پرچم (51) ۔ امن اور کھیل

سفید جھنڈے کا نشان ہزاروں سال پرانا ہے۔ رومی تاریخ میں کریمونا کی جنگ کی شکست کے لئے سفید جھنڈا لہرانے کا ذکر ملتا ہے۔ چینی بھی ہزاروں سال س...


سفید جھنڈے کا نشان ہزاروں سال پرانا ہے۔ رومی تاریخ میں کریمونا کی جنگ کی شکست کے لئے سفید جھنڈا لہرانے کا ذکر ملتا ہے۔ چینی بھی ہزاروں سال سے سفید رنگ کو استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
میدان جنگ کی کنفیوژن میں سفید جھنڈا واضح سگنل کا کام کرتا ہے۔ اور اب جنگ بندی، ہتھیار ڈالنے، محفوظ راستے اور امن کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جینوا کنونشن میں واضح طور پر سفید جھنڈے کے استعمال کا ذکر ہے اور اس کو عسکری چال کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیوا کنونشن میں ایک اور جھنڈے کا ذکر ہے جو کہ انٹرنیشل کمیٹی آف ریڈ کراس کا ہے۔ عسکری افواج اس کو استعمال کر سکتی ہیں۔ اسے کب استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اس پر سخت گائیڈلائن موجود ہیں۔ مثلا، کونسی عمارات پر؟ ان کا سائز کتنا ہو سکتا ہے؟ جنگ میں ایسی کسی عمارت، گاڑی یا آلات پر حملہ کرنا جہاں اس کا نشان ہو، جنگی جرم ہے۔
اس کی ابتدا 1863 میں ہوئی۔ اور اس وقت جو علامت چنی گئی، وہ سویٹزرلینڈ کے جھنڈے کا برعکس تھا۔ سفید جھنڈے پر سرخ صلیب۔ (سویٹزرلینڈ کے سرخ جھنڈے پر سفید صلیب بنی ہے)۔ سویٹزرلینڈ کا جھنڈا اس لئے چنا گیا کہ یہ غیرجانبدار ملک تھا۔ اگرچہ اس کو چننے میں مذہبی وجہ نہیں تھی لیکن یہ جھنڈا واضح طور پر اس سے مماثلت رکھتا تھا جو کہ صلیبی جنگوں میں استعمال کیا گیا۔ اس سے تیرہ سال بعد روس اور ترک جنگ شروع ہو گئی۔ عثمانیوں نے صلیب کی جگہ ہلال بنا لیا جو کہ ترکوں کا نشان تھا۔ بعد میں دوسرے مسلمان ممالک نے بھی یہی استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اس بارے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ صلیب اور ہلال کی علامات دراصل مذہبی شناخت رکھتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ دنیا میں دیگر مذاہب بھی ہیں۔
ریڈ کراس کے صدر نے 1992 میں کہا کہ کسی تیسری علامت کی ضرورت ہے۔ 2005 میں متبادل جھنڈا تجویز کیا گیا۔ یہ ریڈ کرسٹل ہے۔ سفید جھنڈے پر سرخ ڈائمنڈ بنا ہے۔ اور یہ نظر آنا شروع ہو گیا ہے لیکن ابھی باقی دو جھنڈوں کے مقابلہ میں کم پہچانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اولمپکس کھیلوں کا ماٹو “تیز تر، بلند تر اور مضبوط تر” ہے۔ اس کے معنی ہر قیمت پر جیت نہیں بلکہ اپنی طرف سے کی گئی پوری کوشش کے ہیں۔ اس کا جھنڈا سفید رنگ پر پانچ دائرے ہیں جو کہ بیرن پیر ڈی کوبرٹن کا ڈیزائن ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کھیلوں کے مقابلے اقوامِ عالم کو قریب کر سکتے ہیں۔ اور 1892 میں انہوں نے جدید اولمپک کھیل شروع کرنے کے لئے لابی کیا۔ اس سے دو سال بعد اولمپک کمیٹی قائم ہوئی جس میں بارہ ممالک کے 79 لوگ شامل تھے۔ 1896 میں پہلے اولمپک کھیل ایتھنز میں منعقد ہوئے۔
اس وقت اولمپک کھیلوں کا کوئی جھنڈا نہیں تھا۔ 1913 میں پہلی مرتبہ کوبرٹین کے خط پر یہ ڈیزائن نمودار ہوا۔ جبکہ 1920 میں سٹیڈیم میں کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں اسے کھولا گیا۔ امن کی پانچ فاختاؤں کو چھوڑا گیا اور پہلی بار کسی نے یہ جھنڈا اٹھایا۔
پانچ دائروں کا مطلب براعظموں کا اتحاد دکھایا تھا۔ سفید پس منظر امن کے لئے ہے۔ پانچ دائرے الگ رنگوں (نیلا، سیاہ، سرخ، پیلا اور سبز) میں ہیں۔ سفید کو ملا جھنڈے پر چھ رنگ ہیں۔ کوبرٹین کے مطابق یہ دنیا کے تمام ممالک کے جھنڈوں کے رنگوں میں یہ شامل ہیں۔
اس جھنڈے کو بناتے ساتھ ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی تھی۔ اور پہلی بار یہ اس جنگ کے بعد لگایا گیا۔ اور ان کھیلوں میں انتیس ممالک نے شرکت کی جس میں مصر اور ارجنٹینا بھی شامل تھے لیکن عالمی امن اور اتحاد کا جذبہ کچھ ڈھیلا اس وقت پڑ گیا جب جرمنی کو نہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہنگری، بلغاریہ، آسٹریا اور ترکی بھی مدعو نہیں کئے گئے۔ ایسا ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی ہوا۔
اولمپک کھیلوں میں قومی جھنڈے نمایاں حصہ ہیں۔ اگرچہ کہ ان کے سپرٹ ممالک کو اکٹھا کرنے کی تھی لیکن ممالک کی اپنی توجہ زیادہ سے زیادہ میڈل لینے پر مرکوز ہوتی ہے جو کہ قومی فخر بلند رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔
 اور ایسا صرف اولمپکس میں نہیں۔ کھیل اور قومی فخر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہر قسم کے بین الاقوامی مقابلوں میں قومی جھنڈے کپڑوں پر، چہروں پر اور ہر قسم کی اشیا پر نظر آتے ہیں۔ عام طور پر یہ قومی شناخت کا بے ضرر اظہار ہوتا ہے لیکن کئی بار جب جوش و جذبہ عروج پر ہو تو بات بڑھ بھی جاتی ہے۔
(جاری ہے)