افریقہ میں یورپی قبضہ ایک صدی سے بھی کم عرصہ رہا ہے۔ اس دوران مقامی کلچر اور لوگ باقی رہے۔ جب کالونیل حکمران یہاں سے نکلے تو ان کی علامات کو...
افریقہ میں یورپی قبضہ ایک صدی سے بھی کم عرصہ رہا ہے۔ اس دوران مقامی کلچر اور لوگ باقی رہے۔ جب کالونیل حکمران یہاں سے نکلے تو ان کی علامات کو مسترد کر دیا گیا۔
جنوبی امریکہ میں مقامی آبادی ۔۔ مایا، انکا، ایزٹک وغیرہ ۔۔ کا یوریپوں کی مسلط کردہ جنگ اور بیماریوں سے بڑی حد تک صفایا ہو گیا۔ جو بچے، وہ دور دراز کے علاقوں کی طرف چلے گئے۔ تین صدیوں تک پرتگیزی اور ہسپانوی یہاں پر حکمران رہے۔ (برطانوی اور فرانسیسی بھی، لیکن بہت مقابلتا بہت کم حصے پر)۔ آج یہاں کی آبادی 626 ملین ہے جس میں سے یورپیوں کے آنے سے پہلے والی مقامی آبادی دس فیصد سے کم ہے۔
اس وجہ سے جب لاطینی امریکہ میں آزادی کا غلغلہ بلند ہوا تو قابض اور مقبوض لوگ ایک ہی نسل اور زبان کے تھے۔ شمالی امریکہ کی طرح ہی جنوبی امریکہ میں یورپی آبادکاروں نے یورپی طاقتوں سے الگ شناخت بنائی۔ اور ان سے آزادی حاصل کی۔
جب نپولین نے یورپ کو فتح کرنا شروع کیا تو ہسپانوی اور پرتگیزی بادشاہتیں کمزور پڑنے لگیں۔ اور اسی وجہ سے لاطینی امریکہ آزاد ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاطینی امریکہ عام طور پر میکسیکو سے لے کر ساڑھے پانچ ہزار میل جنوب میں ارجنٹینا کے آخری کنارے تک پھیلا ہے۔ اور یہاں پر ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں کا غلبہ ہے۔
جب 1498 میں کولمبس وینیزویلا پہنچے تو یہاں کے ساحل پر پہنچنے والے میٹھے پانی کے بڑے ریلے سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے ہسپانوی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملک ایزابیلا کو لکھا کہ انہیں جنتِ ارضی مل گئی ہے۔
“میں نے کبھی اتنا زیادہ میٹھا پانی سمندر کے نمکین پانی کے قریب نہیں دیکھا۔ درجہ حرارت بہترین ہے۔ اور اگر یہ پانی جنت سے نہیں آ رہا تو پھر یہ حیران کن ہے۔ اتنا بڑا اور گہرا دریا اس دنیا کا نہیں ہو سکتا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپانیوں کے لئے یہ پرکشش تھا اور اس تمام براعظم کو دوسرا گھر بنانے کی لگن میں جوق در جوق آنے لگے۔ 1717 تک وہ تمام علاقہ جہاں کولمبس پہنچے تھے، ہسپانوی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا جو کہ نیو گرناڈا تھا۔ یہ علاقہ آج کے وینیزویلا، کولمبیا، پانامہ اور ایکواڈور کے علاقوں پر مشتمل تھا۔
(جاری ہے)