نائیجریا کا ملک 1914 میں برطانیہ نے تخلیق کیا۔ عثمان بن فودی نے انیسویں صدی کے آغاز میں سکوتو میں خلافت قائم کی تھی۔ اسے خلافت فی بلاد السو...
نائیجریا کا ملک 1914 میں برطانیہ نے تخلیق کیا۔ عثمان بن فودی نے انیسویں صدی کے آغاز میں سکوتو میں خلافت قائم کی تھی۔ اسے خلافت فی بلاد السودان (Sokoto Caliphate) کا نام دیا تھا۔ اور خود امیر المومنین کا لقب اختیار کیا تھا۔ اس سلسلے میں بارہ خلیفہ رہے اور 1903 میں یہ علاقہ برطانیہ کے پاس آیا۔
نائیجیریا کا ملک اس خلافت کے حصوں کے علاوہ بینن سلطنت اور اویو سلطنت کے بقایاجات سے ملکر بنایا گیا تھا۔
نائیجیریا کو آزادی یکم اکتوبر 1960 میں ملی۔ اس میں 250 قومیتیں، 36 علاقے اور 2 بڑے مذاہب ہیں۔ اپنی تاریخ میں یہ ملک زیادہ تر نازک موڑ پر رہا ہے۔ مارشل لاء، سیاسی عدم استحکام، خانہ جنگی، نسلی کشیدگی اور مذہبی جھگڑوں جیسے مسائل رہے ہیں۔
اس کے جھنڈے میں تین پٹیاں ہیں۔ سبز، سفید اور سبز۔ سبز یہاں کے جنگلات اور زراعت کے لئے ہے جبکہ سفید امن کے لئے۔
اس جھنڈے کو 1959 میں ایک تئیس سالہ طالبعلم مائیکل آکنککنمی نے ڈیزائن کیا تھا جو کہ لندن میں انجینرنگ کر رہے تھے۔ انہیں علم ہوا کہ اگلے سال آزاد ہونے والے نائیجیریا کے جھنڈے کے ڈیزائن مانگے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ ڈیزائن بنا کر خط کے ذریعے اپنے گھر بھیجا۔ دو ہزار سے زیادہ شرکاء نے اس میں حصہ لیا۔ ان کی فیملی کے پاس آج بھی وہ جوابی خط موجود ہے جس میں برطانوی کرنل ہیفورڈ نے بتایا تھا کہ “آپ کی شرکت کا شکریہ۔ آپ کی تجویز پر غور کیا جائے گا”۔
ان کا ڈیزائن منتخب کر لیا گیا۔ ان کو 100 پاؤنڈ کا انعام ملا۔ تاہم، ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں نہیں آیا۔
آکنکنمی 2006 میں ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے جو کہ دارالحکومت سے 70 میل دور ایک پسماندہ علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ ایباڈان یونیورسٹی کے ایک طالبعلم، اولانیران، اپنے ملک کی تاریخ پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں جھنڈے کے ڈیزائنر کا پتا لگا۔
اولانیران نے ڈیلی سن اخبار کے ساتھ ملکر پتا لگایا کہ جھنڈے کے خالق کہاں پر ہیں۔ ان کی صحت خراب تھی اور غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ پنشن ناکافی تھی۔ ان کی کہانی اخبار میں شائع ہوئی۔ لوگوں نے انہیں کپڑے اور کھانا بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن اولانیران نے مہم جاری رکھی۔ چند سال لگے لیکن سرکاری طور پر جھنڈے کے ڈیزائنر کو تسلیم کروایا۔ 2010 کے یومِ آزادی انہیں قومی اعزاز دیا گیا اور صدر نے ان کے لئے وظیفہ مقرر کیا۔
البتہ، جو ڈیزائن آکنکنمی نے دیا تھا، اس کے درمیان میں سرخ سورج تھا جو کہ نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ قومی جھنڈے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ مثلا، ایک تبصرہ نگار فاروق کپروگی نے 2012 میں لکھا کہ “ہمارا جھنڈا بہت بورنگ ہے۔ ایک ہی رنگ کو دو بار بنا دیا گیا ہے اور یہ جھنڈا ہمارے ملک کے بارے میں کسی بھی چیز کا اظہار نہیں کرتا۔ ہمارے لئے یہ جھنڈا برطانوی حکمرانوں نے منتخب کیا تھا۔ ہمیں آزاد ہوئے نصف صدی سے زیادہ ہو گیا۔ کیا ہمیں دوبارہ غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اپنے لئے کیا انتخاب کریں جو کہ ہماری ثقافت اور تاریخ کی نمائندگی کرے؟”۔
فاروق کپروگی ایک دلچسپ بحث کو چھیڑتے ہیں لیکن بہت سی آوازوں میں ان کی یہ ایک رائے ہے۔ نسبز، سفید اور سبز نائیجیریا کے لئے دنیا میں پہچان ہے۔
(جاری ہے)