انیسویں صدی کے آخر تک فرانس، برطانیہ، بلجیم اور جرمنی افریقہ کا بڑا حصہ بٹور چکے تھے۔ اٹلی اس مقابلے میں دیر سے داخل ہوا۔ اس نے ایریٹریا کو...
انیسویں صدی کے آخر تک فرانس، برطانیہ، بلجیم اور جرمنی افریقہ کا بڑا حصہ بٹور چکے تھے۔ اٹلی اس مقابلے میں دیر سے داخل ہوا۔ اس نے ایریٹریا کو کالونی بنایا۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے اس نے حبشہ پر حملہ کیا کہ اس پر قبضہ کر لے۔ 1895 میں شدید جنگ ہوئی جس میں اطالوی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے سات ہزار سے زائد فوجی مارے گئے اور یہ علاقہ یورپی طاقت کی پہنچ سے باہر رہا۔
یہاں پر کئی دہائیوں سے یہ روایت رہی تھی کہ سرخ، سنہری اور سبز رنگ کے جھنڈے کو فتح کی علامت کی طور پر لہرایا جاتا تھا۔ یہ کرسچن اکثریت کا ملک تھا۔ اور یہ رنگ اس روایت سے لئے گئے تھے کہ طوفان نوح کے بعد خدا نے بارش کے بعد قوس قزح میں یہ رنگ دکھائے تھے۔ جب اطالوی افواج کو شکست ہوئی تو بادشاہ منلک دوئم نے اس جھنڈے کو پہلی بار 1897 میں سرکاری جھنڈے کے طور پر اپنا لیا۔ یہ کسی بھی افریقی قومی ریاست کا پہلا جھنڈا تھا۔ اس میں ایک علامت کا اضافہ کر لیا گیا جس میں ایک شیر عصا اٹھائے کھڑا تھا۔ یہ بادشاہ کا نشان تھا۔ جب 1974 میں ملک میں مارکسسٹ انقلاب آیا تو اسے ہٹا دیا گیا۔
اٹلی دوبارہ حملہ آور 1930 کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کا فاشسٹ دور تھا۔ ہتھیار بدل چکے تھے جس میں کیمیائی ہتھیار بھی شامل تھے۔ اس بار کامیابی ملی اور ملک پر قبضہ کر لیا گیا۔ حبشہ اس وقت لیگ آف نیشنز کا حصہ تھا۔ اقوام عالم کی اکثریت نے اس قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ قبضہ پانچ سال تک رہا۔
برطانیہ اور فرانس بھی لیگ آف نیشنز کے رکن تھے اور انہوں نے خفیہ طور پر اٹلی سے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اس جارحیت سے صرف نظر کریں گے۔
اٹلی کو 1941 میں نکال دیا گیا اور ایتھوپیا نے آزاد ملک کی حیثیت میں دوبارہ آ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے آخر تک افریقہ میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔
اور اسی وقت میں یہاں سے ہزاروں میل دور مغرب میں ایک اور دوررس تبدیلی آ رہی تھیں۔ جو کہ سیاہ فام لوگوں میں سیاسی شعور کی بیداری کی صورت میں تھی۔
جمیکا میں پیدا ہونے والے مارکس گاروی “افریقہ کی طرف واپسی” کے تصور کے بانی تھے۔ ان کی تنظیم (United Negro Improvement Association) جمیکا سے نیویارک گئی اور پھر باقی امریکہ میں پھیلنے لگی۔ ان کا آئیڈیا تھا کہ سیاہ فام لوگوں کو نہ صرف اپنی وراثت پر فخر کرنا چاہیے بلکہ انہیں واپس افریقہ چلے جانا چاہیے۔ انہوں نے اسی مقصد کے لئے بحری جہازوں کی کمپنی کھولی۔ کمپنی ناکام ہو گئی۔ گاروی کو فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور جمیکا بھیج دیا گیا۔ اس دوران میں گاروی اور ان کی تنظیم ایک جھنڈا بنا چکے تھے جو کہ متحد افریقہ (Pan Africa) کے لئے تھا۔
سرخ، سیاہ اور سبز جھنڈا اس تحریک کا تھا جو کہ افریقی لوگوں کو یکجا کرے۔ کالونیل طاقتوں کو افریقہ سے نکالے۔ اور افریقہ کی ترقی کے لئے جدوجہد کرے۔ اس جھنڈے کو 1920 میں نیویارک کی عالمی کانفرنس میں بے نقاب کیا گیا۔ اس کانفرنس میں افریقہ کے پچیس ممالک سے نمائندے شریک تھے۔
انہی رنگوں کا انتخاب کیوں؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ سرخ اس خون کا رنگ ہے جو ہمارے لوگوں کو آزادی کے لئے دینا ہے۔ سیاہ اس عظیم نسل کا رنگ ہے جس کے ہم رنگ ہیں۔ اور سبز ہمارے براعظم کے گھنے جنگلات کا ہے۔
گاروی نے یہ ایتھوپیا کے جھنڈے سے متاثر ہو کر بنایا تھا اور یہ اسی سے مشابہت رکھتا تھا۔ اور اس کا اثر آنے والے وقت میں بننے والے افریقی قومی جھنڈوں پر رہا۔
افریقہ میں آزادی کے لیڈر، جیسا کہ کینیا کے جومو کینیاٹا یا گھانا کے کوامے نکروما نے گاروی کے کام کو پڑھا تھا اور متحد افریقہ پر یقین رکھتے تھے۔
سبز، سرخ، سیاہ اور ایتھیوپیا کے جھنڈے سے لیا گیا سنہرا ۔۔ یہ افریقہ کے رنگ بن گئے۔ اور اس وجہ سے بہت سے افریقی جھنڈوں میں نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)