شمالی کوریا کا سرکاری نام ڈیموکریٹک ری پبلک آف کوریا ہے۔ دنیا میں زیادہ تر ممالک جن کے نام میں جمہوریہ آتا ہے، ان میں جمہوریت نہیں ہوتی۔ ش...
شمالی کوریا کا سرکاری نام ڈیموکریٹک ری پبلک آف کوریا ہے۔ دنیا میں زیادہ تر ممالک جن کے نام میں جمہوریہ آتا ہے، ان میں جمہوریت نہیں ہوتی۔ شمالی کوریا میں بھی نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی یہ ری پبلک ہے۔ عملی طور پر یہ کم خاندان کی بادشاہت ہے جو کہ ملک بننے سے اب تک حکمران ہے۔ اپنے لوگوں کے لئے یہ دنیا کی جابر ترین آمریت سمجھی جاتی ہے۔
شمالی کوریا کے جھنڈے کی کہانی کے بارے میں اچھی معلومات دستیاب نہیں۔ اس پر ایک مضبوط “ڈیلی نارتھ کوریا” میں لکھا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب 1947 میں ملک قائم ہوا تو سوویت یونین کے طرف سے حکم آیا کہ نئی ریاست بن رہی ہے تو نیا جھنڈا بنایا جائے۔ میجر جنرل لیبیڈیف نے پینسٹھ سالہ پارٹی لیڈر کم تو بونگ کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور کوریا کے رائج جھنڈے کے معنی پوچھے۔
سوویت جنرل کے لئے چینی فلسفے پر مبنی یہ ڈیزائن قدیم زمانے کے توہمات تھے۔ قدیم کتاب سے ین، یینگ، لکیریں سننے کے درمیان میں ہی جنرل نے کہا “بس، بہت ہو گیا”۔
چند ماہ بعد شمالی کوریا کا نیا جھنڈا بنا لیا گیا۔ یہ سوویت دور کے جھنڈے کی بنیاد پر تھا۔ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، جھنڈے کا سرخ انقلابی روایت کی علامت ہے۔ اوپر اور نیچے نیلی پٹیاں ہیں جو کہ “دنیا کے ترقی پسند لوگوں کی طرف سے آزادی، امن، بھائی چارے کی فتح کے لئے لڑنے کے عزم کا بتاتی ہیں”۔ ان کے ساتھ سفید پتلی پٹیاں “کورین قوم کی تابناک ثقافت کی علمبردار ہیں”۔ جبکہ بڑا سرخ ستارہ “کوریا کی آزادی کے جذبے اور ہیروز کو سلام پیش کرنے کیلئے ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے اگلے سال کم تو بونگ نے نئے قومی پرچم پر کتاب شائع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ “نیا جھنڈا یہ علامت ہے کہ “عوام خوش ہیں اور ملک قابلِ رشک رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ پرانا جھنڈا غیرسائنسی تھا اور توہمات کی بنیاد پر تھا۔ کندذہنی اور رجعت پسندی کی علامت تھا۔ روشن مستقبل رکھنے والے ملک کے لئے اسے بدلنا لازم تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی جابرانہ ریاست کی طرح اگلے برسوں میں شمالی کوریا نے حب الوطنی کے لئے نئے قصے بنائے۔ ان میں بتایا گیا کہ کیسے عظیم قائد کم ال سونگ نے جاپان کی شاہی فوج کو شکست فاش دی۔ اور یہ بھی کہ عظیم قائد نے یہ جھنڈا خود بنایا تھا۔
کم خاندان میں اس کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ ال آئے۔ ان کے القابات زیادہ شاندار تھے جس میں سے ایک “جوشے کا چمکتا آفتاب” ہے۔ جوشے شمالی کوریا کا سیاسی نظام ہے۔ اس میں کمیونسٹ فلسفہ اور نیشنلسٹ خودکفالت شامل ہیں۔
ان کے بعد ان کے بیٹے کم جون ان تخت نشین ہوئے۔ کم خاندان کے مطابق انہوں نے بھی خاندان کی روایت برقرار رکھی ہے اور عظیم حکمران ثابت ہوئے ہیں۔ ان کو دئے گئے القابات انکی سینکڑوں خوبیوں کے گواہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے شمالی کوریا کا جھنڈا پہلی بار بنایا گیا، جنوبی کوریا نے اپنے علاقے پر اس کی نمائش کو ممنوع قرار دے دیا۔ شمالی کوریا میں جنوبی کوریا کے جھنڈے اور ترانے پر پابندی ہے۔ جب 2008 میں فٹبال کے ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے کے لئے دونوں ٹیموں کا میچ شمالی کوریا کے دارالحکومت میں کھیلا جانا تھا تو اسے چین میں منتقل کرنا پڑا۔ شمالی کوریا نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ جنوبی کوریا کا جھنڈا اس کی سرزمین میں کہیں پر بلند کیا جائے اور ترانہ بجایا جائے۔
جب 2014 کے ایشیائی کھیل جنوبی کوریا میں ہوئے تو اس نے شمالی کوریا کے جھنڈے کی نمائش پر پابندی کو برقرار رکھا۔ یہ صرف ایتھلیٹ لگا سکتے تھے۔ اگرچہ یہ ایشیائی اولمپک کونسل کے قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ سفارتی تنازعہ بن گیا۔
دونوں کوریا ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ اور جغرافیہ کے لحاظ سے سے بہت قریب ہے۔ جنگ ایک مستقل خطرہ ہے۔ سئیول میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ہر وقت شمالی کوریا کے توپخانے کے نشانے پر ہے۔ نیوکلئیر پروگرام پورے خطے کو خوفزدہ کرتا ہے۔
خاندانی جھگڑے سب سے تلخ ہوتے ہیں۔ لیکن جس چیز پر یہ کچھ اتفاق کر سکتے ہیں، وہ یہ کہ ان دونوں کی مشترک تلخی اپنے ہمسائے جاپان کے ساتھ ہے۔
جاپان نے بیسویں صدی میں پینتیس سال تک کوریا کے جزیرہ نما پر حکومت کی تھی۔ اور بہت ظالمانہ دور تھا۔ جاپانی جھنڈا سرکاری عمارتوں پر لہرایا جاتا تھا اور سکول میں بچے قومی ترانہ پڑھا کرتے تھے۔ اگرچہ جاپان اب ایک پرامن جمہوریت ہے لیکن کوریا کیلئے پرانے زخم ابھی باقی ہیں۔
(جاری ہے)