کیا عرب ایک قوم ہیں؟ اگر زبان عربوں کو جوڑتی ہے (اگرچہ اس کے کئی الگ لہجے ہیں) تو اس خیال کی بنیاد بنتی ہے۔ لیکن اگر ہم عرب دنیا میں لوگوں ک...
کیا عرب ایک قوم ہیں؟ اگر زبان عربوں کو جوڑتی ہے (اگرچہ اس کے کئی الگ لہجے ہیں) تو اس خیال کی بنیاد بنتی ہے۔ لیکن اگر ہم عرب دنیا میں لوگوں کو دیکھیں تو یہ آئیڈیا زیادہ کام نہیں کرتا۔ کیونکہ فرق زیادہ ہیں۔ ایک اور جوڑنے والی چیز مذہب ہے۔ کیونکہ اسلام یہاں پر غالب اکثریت کا مذہب ہے اور سیاست میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامی فکر سرحدوں اور سیاست کے پار بھی اشتراک رکھتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور قسم کا مسئلہ ہے۔ اور یہ دولت اسلامیہ کی صورت میں نظر آیا تھا۔ اس تنظیم کا قائم کردہ ظالمانہ نظام اور ناقابل عمل یوٹوپیا جلد زمین بوس ہو گیا۔ لیکن مذہب اور سیاست کا مکالمہ جاری ہے۔
تیونس میں 2016 میں حرکت الحضة نے اقتدار چھوڑا۔ یہ بڑی اسلامی جماعت ہے جسے انتخابات میں شکست ہوئی۔ اس نے سیاست اور مذہب کی علیحدگی کو باقاعدہ طور پر قبول کر لیا ہے۔ اس نے بیان جاری کیا۔ “ہم سیاسی اسلام کو چھوڑ رہے ہیں اور جمہوری اسلام میں داخل ہو رہے ہیں”۔ یہ بیان بنیادی طور پر دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو نظریاتی طور پر مسترد کرتا ہے۔ تیونس نے پین عرب رنگوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے شمالی افریقہ کی شناخت کی بنیاد پر جھنڈا بنایا۔ سیاسی طور پر بھی اس نے مشرق میں عربوں سے منتخب اثر قبول کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصری دانشور تحسین بشیر کا فقرہ “جھنڈوں والے قبائل” 1960 میں مشہور ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مصر کے سوا باقی تمام علاقے قبائل ہیں جبکہ مصر ایک قومی ریاست ہے۔ اس کی وجہ مصر کا اپنی شناخت کا غرور تھا جو کہ مصر محاورے “مصر ام الدنیا” (مصر تمام دنیا کی ماں ہے) میں بھی جھلکتا ہے۔
تحسین بشیر کا قول عرب پسند نہیں کرتے لیکن اس میں جو نکتہ ہے، وہ یہ کہ قومی ریاست بنانے کے لئے یورپی کالونیل قبضہ گروں کی ریت پر کھینچی لکیریں ناکافی ہیں۔ قومی کے لئے ثقافتی اور قومی ہم آہنگی درکار ہے۔ اور ان لکیروں کے اندر رہنے والوں میں ایسی ہم آہنگی کی کمی ہے۔ جھنڈا بنانا اور لکیر کھینچنا آسان ہے لیکن لوگوں کے ذہنوں میں ایک مشترک قوم کا تصور بنانا دشوار کام ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ عرب دنیا میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کچھ جھنڈے بلند نہ رہیں۔ بحیرہ روم سے بحیرہ عرب کے درمیان چلتے طوفان انہیں ریت سے ڈھانپ دیں۔
عراق، یمن، سیریا کی قسمت میں ایک وفاق کے طور پر رہنا شاید ممکن ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ نئے وفاقی حقائق کی بنیاد پر نئے پرچم دیکھنے کو ملیں۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ اس میں سبز، سفید اور سیاہ رنگ ہوں گے۔ بنوامیہ، عباسی اور فاطمیوں کی یادگار عرب دنیا میں مشترک رہے گی۔ اور شاید سرخ رنگ بھی ہو۔ ہاشمیوں نے عربوں کا یہ رنگ اپنے لئے چنا تھا لیکن رنگ خون اور شہادت کی علامت کا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس خطے میں قومی سرحدیں اور ریاستی شناخت ہمیشہ مضبوط نہیں ہے۔ اور یہ یہاں پر بدامنی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)