Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پرچم (12) ۔ جرمنی

جرمنی ایک نیا ملک ہے لیکن اس کے جھنڈے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ یہ سیاہ، سرخ اور سنہری پٹیوں پر مشتمل ہے۔ پہلی بار یہ تین رنگ 1919 میں اکٹھے ...


جرمنی ایک نیا ملک ہے لیکن اس کے جھنڈے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ یہ سیاہ، سرخ اور سنہری پٹیوں پر مشتمل ہے۔
پہلی بار یہ تین رنگ 1919 میں اکٹھے ہوئے تھے جب ویمار ری پبلک وجود میں آئی تھی۔ اس سے پہلے جب 1871 میں وفاقی ریاستوں نے اکٹھے ہو کر جرمنی بنایا تھا تو اس کا پہلا جھنڈا سیاہ، سفید اور سرخ تھااور یہ رنگ ان علاقوں میں استعمال ہوتے رہے تھے۔ پولش مورخ جان ڈلوگوز لکھتے ہیں کہ پندرہویں صدی سے سترہویں صدی تک ان علاقوں میں استعمال ہونے والے 65 جھنڈوں میں سب سے زیادہ سرخ یا سفید استعمال ہوتے تھے اور اس کے بعد سیاہ۔ سرخ رنگ شارلیمین کی علامت ہے (یہ Holy Roman Empire کے پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے جرمن علاقوں سمیت یورپ کو اکٹھا کیا)۔
اس سلطنت کا نشان سنہری ڈھال پر سیاہ عقاب کا تھا۔ اگرچہ سلطنت ختم ہو گئی لیکن جرمن علاقوں میں یہ رنگ مقبول رہے۔ جب 1813 میں عوام نے علاقوں کے اتحاد پر احتجاج کئے تو نپولین سے لڑنے والی فوج نے سیاہ اور سرخ رنگ جن کے کنارے سنہرے تھے، اپنے یونیفارم میں استعمال کرنے شروع کر دئے۔ اور یہ رنگ متحد جرمنی کی علامت بن گئے۔
ان کے پڑوس میں فرانس نے تین رنگوں کا پرچم اپنا لیا تھا اور یہ فیصلہ جرمنی پر اثرانداز ہوا۔ پرچم کے رنگ کیا ہوں؟ اوٹو وان بسمارک طاقتور چانسلر تھے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ سیاہ، سرخ اور سفید ہوں۔ اور یہ دوسری جرمن ری پبلک کا جھنڈا بنا جو کہ تقریبا چالیس سال تک رہا۔ جب جرمنی پہلی جنگ عظیم ہار گیا تو یہ جھنڈا اس صدمے کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ نئی بننے والی ویمار ری پبلک نے ان رنگوں کا جھنڈا بنایا جو کہ آج جرمنی کے رنگ ہیں۔ لیکن یہ ہٹلر کا سامنا نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ رنگ مسترد کر دئے۔
جب 1933 میں نازی حکومت بنی تو نیا فرمان جاری کیا گیا۔ اس میں دو جھنڈے استعمال ہوں گے۔ ایک سیاہ، سرخ اور سفید۔ اور دوسرا سواستیکا جو نازی پارٹی کا تھا اور اسے سرکاری عمارتوں اور بحری جہازوں پر نصب کیا جائے گا۔ اس سے دو سال بعد صرف نازی پارٹی کا جھنڈا ہی بچا۔ یہ قانون 1935 میں منظور کیا گیا۔
اس کی وجہ امریکہ میں ہونے والا واقعہ تھا۔ نیوریارک میں سینکڑوں کمیونسٹ نازی پارٹی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ بندرگاہ پر جرمنی جہاز کھڑا تھا۔ یہ اس جہاز میں گھس گئے اور جھنڈے کو اتار کر پانی میں پھنک دیا۔ جرمنی نے اس پر احتجاج کیا اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن امریکہ نے جواباً کہا کہ یہ کسی ملک کا نہیں بلکہ ایک پارٹی کا جھنڈا ہے۔ اس کے جواب میں آٹھ ہفتے بعد قانون کے ذریعے پارٹی کے جھنڈے کو ہی ملک کا جھنڈا بنا لیا گیا۔
دس سال تک یہ جرمنی کا جھنڈا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ودسری جنگ عظیم ختم ہوئی۔ جرمنی ہتھیار ڈال چکا تھا۔ یورپ کی تعمیر نو ہونی تھی اور جرمنی کی شہرت کی بھی۔ نازی جھنڈے پر پانبدی لگ گئی اور ویمار ری پبلک والا جھنڈا واپس آ گیا۔
لیکن پھر جرمنی دولخت ہو گیا۔ دونوں ممالک نے رنگ برقرار رکھے۔ مشرقی جرمنی نے کمیونسٹ علامات کا اضافہ کر لیا جس میں گندم، ہتھوڑا اور پرکار تھی جو مزدور، کسان اور معلم کی علامت تھیں۔
دیوارِ برلن گرنے کے دنوں میں مشرقی جرمنی میں کئی لوگوں نے کمیونسٹ کے اس علامت کو جھنڈے کے درمیان میں سے پھاڑ دیا۔ (ایسا ہی ہنگری اور پھر رومانیہ میں کیا گیا تھا)۔ یکجا ہو جانے کے بعد مشرقی جرمنی کا جھنڈا ختم ہو گیا۔
یکجائی کے ابتدائی برسوں میں جھنڈا پس منظر میں رہا لیکن وقت کے ساتھ جرمن شناخت اور قوم پرستی پر فخر میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی کی موجودہ نسل نہ صرف دوسری جنگ عظیم کے دنوں سے نسبت نہیں رکھتی بلکہ دیوار برلن بھی پچھلی نسل میں ہونے والا واقعہ تھا۔ یعنی کہ جس کا علم تو ہے لیکن اثر نہیں۔ جرمن قوم پرستی اب زور پکڑ رہی ہے اور اس کی علامت جرمنی میں سیاہ، سرخ اور سنہری جھنڈے کی جرمن کلچر میں فخریہ واپسی ہے ہے۔
(جاری ہے)