Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پرچم (10) ۔ یورپ (2)

ایک سوال عام طور پر پوچھا جاتا ہے کہ “یورپ کیا ہے” اور اس کا جواب یہ ہے کہ “یہ اس پر منحصر ہے کہ پوچھ کس سے رہے ہیں”۔ یہ جغرافیائی علاقہ ہے ...


ایک سوال عام طور پر پوچھا جاتا ہے کہ “یورپ کیا ہے” اور اس کا جواب یہ ہے کہ “یہ اس پر منحصر ہے کہ پوچھ کس سے رہے ہیں”۔ یہ جغرافیائی علاقہ ہے لیکن اس کی کی تعریف آپ کے نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ ترکیہ کا زیادہ تر حصہ ایشیا میں ہے لیکن کئی لوگ اسے یورپ کا حصہ کہتے ہیں۔ کوہ یورال کے مشرق میں ایشیا ہے لیکن اگر روس کو یورپ میں کہا جائے تو سائبیریا تک یورپ ہی ہو گا۔ جارجیا جغرافیے میں ایشیا میں ہے لیکن سیاسی لحاظ سے یورپ میں۔ اور آئس لینڈ؟ اصطلاحات لچکدار ہوتی ہیں۔ (یہاں تک کہ 2016 میں یورپی موسیقی کے مقابلے میں آسٹریلیا بھی شامل ہو گیا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپی یونین نے 1985 میں یہ جھنڈا تو اپنا لیا۔ اب سوال سیاسی طور پر اکٹھے ہونے کا تھا۔ یورپی یونین کا ایک بڑا مقصد فرانس اور جرمنی کا ایک دوسرے کو گلے لگانا تھا تا کہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہ ہوں۔ اس مقصد میں بہت کامیابی رہی۔ لیکن ایک یورپی ریاست کے قیام میں کچھ  خاص کامیابی نہ ہوئی۔
یورپی عوام نے مقامی کلچر سے بلند ہو کر اکٹھے ہونے میں مزاحمت دکھائی ہے۔ ممالک کے قومی جھنڈے طاقتور ہیں۔ اور یورپی شناخت ان کے مقابلے میں خاصی کمزور ہے۔
ڈاکٹر فوکویاما نے 1992 مین اپنی مشہور تھیوری پیش کی تھی جس میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ “سرد جنگ کا خاتمہ انسان کی فکری ارتقا کا اہم سنگ میل ہے۔ مغربی لبرل جمہوریت انسانی معاشروں میں طرز حکومت کی آخری شکل ہے۔ ہم تاریخ کے آخری مقام پر ہیں”۔
یہ ناقص آئیڈیا تھا جو عالمی پالیسی کی مفکرین پر اثرانداز رہا۔ کئی لوگ اس بات پر واقعی میں یقین کر بیٹھے کہ انسانیت کے فکری ارتقا کی منزل لبرل جمہوریت ہے۔ یہ آئیڈیا اتنا ہی غلط رہا جتنا کہ کارل مارکس کا کمیونسٹ یوٹوپیا۔
(فوکویاما ہوں یا کارل مارکس۔ ان کی تھیوریوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کاغذ پر پرکشش لگنے والے خیالات اصل دنیا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ جمہوریت ایک نازک نظام ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے احتیاط کرنا پڑتی ہے)۔
کئی دہائیوں تک خوشحالی کے سبب یورپی یونین کا آئیڈیا قومی شناخت کو لپیٹ میں لیتا رہا۔ لیکن اتحاد کا اصل امتحان مشکل وقت میں ہوتا ہے۔ معاشی بحران نے آسانی سے اس اتحاد میں دراڑیں ڈال دیں۔ قومی شناخت کی واپسی میں قومی جھنڈوں کا بھی کردار رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیال ہے کہ جھنڈے کی موجودہ روایت چین سے 1500 قبل مسیح میں شروع ہوئی تھی۔ ریشم کی ایجاد کے بعد یہ ممکن ہوا تھا کہ ہلکے وزن کے بڑے کپڑے کو رنگا جا سکے، ڈنڈے پر چڑھا کر اٹھایا جا سکے اور لمبے سفر میں ساتھ لے جایا جا سکے۔ یہ رواج چین سے عرب میں پہنچا۔ دورِ نبوت کے وقت تک جھنڈے عرب میں عام ہو چکے تھے۔ یورپ میں یہ کچھ تاخیر سے پہنچے۔ ابتدائی شکل میں کچھ حصوں میں تو موجود تھے لیکن صلیبی جنگوں کے بعد یورپ میں یہ عام ہوئے۔
پہلی صلیبی جنگ 1096 سے 1099 میں لڑی گئی۔ اس میں یورپ کے مختلف ممالک سے اکٹھی ہونے والی فوجوں نے شرکت کی۔ اس وقت یہ احساس ہوا کہ پہچان کا کچھ نشان ہونا چاہیے۔ اس وقت کے لئے صلیب کا نشان استعمال کیا گیا۔ اور یہ مختلف رنگوں اور شکلوں میں علاقوں کے لحاظ سے تھا۔ یہ نشان فوج لباس پر نقش کیا جاتا تھا۔ اس سے رسم و رواج بنے کہ کونسا رنگ، کونسی شکل ہونی چاہیے۔ کب کیا لہرانا چاہیے۔ ترتیب کیا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ کسی کا عہدہ کیا ہے، نسب کیا ہے۔

(جاری ہے)