یہ دنیا اتنی دلچسپ کیوں ہے؟ فزکس میں اس کا جواب تھیوری آف کیاوس (chaos) اور کوانٹم مکینکس ہے۔ تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے ساتھ ساتھ یہ دونوں تھی...
یہ دنیا اتنی دلچسپ کیوں ہے؟ فزکس میں اس کا جواب تھیوری آف کیاوس (chaos) اور کوانٹم مکینکس ہے۔ تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے ساتھ ساتھ یہ دونوں تھیوریز بیسویں صدی کے فزکس کے اہم ترین سنگِ میل تھے۔
کوانٹم فزکس کی وجہ چولہا بنا، تھیوری آف کیاوس کی موسم۔
موسم کیسا رہے گا، بارش کب ہو گی؟ یہ اس قسم کے سوالات ہیں جو قدیم زمانے سے توہمات کی بڑی وجہ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں سب سے زیادہ جہاں پر موسم ناقابلِ اعتبار ہوتا ہے۔ بارش کے لئے رقص کرنے کی بے ضرر رسومات لے کر انسانی قربانیوں تک کی ہولناک رسومات، موسم کو کنٹرول کرنے کی سعی میں کی جاتی رہی ہیں کیونکہ اس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔
موسم کو کنٹرول کرنے کا خواب انسان کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس پر پہلی فتح کا اعلان کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ سائنٹسٹ ارونگ لینگموئر نے 13 نومبر 1946 کو خوشی سے چھلانگیں مارتے ہوئے کیا تھا جب سلور آئیوڈائیڈ کے اضافے کے بعد بادل برس پڑا تھا۔ ان کی پوری عمر اسی میں گزری۔ جنرل الیکٹرک سے لے کر ملٹری تک وہ اسی پر تجربے کرتے رہے۔ ارونگ موسم کو کنٹرول کرنا ایک اخلاقی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اس پر بڑے جوش و جذبے سے بات کیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق طوفانوں سے ہلاکتیں روکنا، قحظ سالی پر قابو پانا اخلاقی فرض تھا۔ یا پھر ہتھیار کے طور پر آسمان سے آگ اور بم پھینکنے سے بہتر دشمن کو بارش اور کیچڑ کی مدد سے شکست دینا اخلاقی لحاظ سے بہت بہتر تھا۔ لیکن اس کے بارے میں سٹورم فیوری کے پائلٹ کی بات شاید زیادہ گہری ہے جو بادلوں کو برسانے اور طوفانوں کو آہستہ کرنے کے تجربے کرتے آئے تھے اور ان کا کہنا تھا، “طوفان اس قدر بڑے ہوتے ہیں اور ہم اس قدر چھوٹے۔” یہ کوشش دنیا کے مختلف حصوں میں جاری رہی۔ سوویت یونین نے چرنوبل سے آنے والے بادلوں کو روکنے کے لئے کوشش کی۔ چین نے بیجنگ اولمپکس کے دوران۔
وقت کے ساتھ موسم کو کنٹرول کرنے کی خواہش تو دم توڑتی گئی لیکن اس کی پیش گوئی ایک مختلف معاملہ ہے۔ اس پر زیادہ اعتماد تھا کہ موسمیاتی سیٹلائیٹ اور کمپیوٹر آ جانے کے بعد یہ پیشگوئی بالکل ٹھیک ٹھیک اور لمبے عرصے تک کے لئے ہو سکے گی لیکن ماہرینِ موسمیات نہیں جانتے تھے کہ جن کمپیوٹرز سے ان کو امید ہے، وہ ان کو ڈبل کراس کریں گے۔ یہ ثابت کر کے کہ مکمل طور پر درست موسم کی پیش گوئی ممکن نہیں۔
پہلا موسمیاتی سنٹر برطانوی ریاضی دان لیوس رچرڈسن کی کاوش تھی۔ ان کا ماڈل یہ تھا کہ دنیا کو الگ گرڈ کی صورت میں تقسیم کر کے ہر ایک پر سات مساوات کا ایک سیٹ چلایا جائے۔ دنیا بھر سے ڈیٹا لے کر ان کو ملا کر ایک عالمی فورکاسٹ بن جائے گی۔ ان کا اندازہ تھا کہ چونسٹھ ہزار کمپیوٹر یہ کام کر لیں گے۔ (اس وقت کمپیوٹر کا مطلب کممپیوٹنگ کرنے والا ایک شخص ہوا کرتا تھا) انہوں نے ایک دن کا انتخاب کیا۔ اس روز کا تمام ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اس کی مدد سے ایک دن کی پیشگوئی اپنے ماڈل کے مطابق کرتے رہے۔ آخر چھ سال کی کوشش کے بعد انہوں نے ناکامی کا اعتراف کر لیا اور اس پر اپنا پیپر 1922 کو شائع کیا۔
کمپیوٹر آ جانے کے بعد رچرڈسن کے کام کو آگے بڑھانے والے ریاضی دان ایڈورڈ لورینز تھے۔ ان کو ایم آئی ٹی کے میٹیریولوجی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت 1960 میں ملی تھی اور اس وقت کے جدید ترین کمپیوٹر مک بی تک رسائی بھی۔ انہوں نے سات کے بجائے بارہ مساوات استعمال کیں اور ان کے پاس ڈیٹا بھی موجود تھا۔ اس ڈیٹا کو اعداد کے نقشے میں تبدیل کرنے کا طریقہ نکالا (جو آج بھی استعمال ہوتا ہے) اور پھر اس کی مدد سے سمولیشن چلاتے تھے۔ ہم ٹی وی پر موسم کی پیشگوئیوں میں بادل یا نیلے پیلے رنگ دیکھنے کے عادی ہیں۔ لورینز کے پاس صرف اعداد کا ٹیبل ہوا کرتا تھا جس سے وہ موسم کو سمجھتے تھے۔ 1961 کی سرد صبح بھی انہوں نے ایسی ہی سمولیشن چلائی تھی۔
اس کے درمیان میں انہیں ایک دلچسپ چیز نظر آئی۔ انہوں نے اسے روکا۔ دوبارہ چلانے کے لئے انہوں نے چھ اعداد دوبارہ فیڈ کئے۔ ان کی ویلیو 0.506 تھی۔ لورینز کافی لینے چلے گئے۔
ایک گھنٹے بعد جب وہ واپس آئے اور نئے نتائج کا تجزیہ کیا تو معاملہ کچھ عجیب تھا۔ دوسری بار چلنے میں ان کو توقع تھی کہ نتائج وہی رہیں گے لیکن ایسا نہ تھا۔ فرق تھا جو کہ ہر قدم پر بڑھتا جا رہا تھا۔ اور آگے چل کر اعداد کا فرق اس قدر مختلف ہو چکا تھا جیسے تیز دھوپ اور ژالہ باری کے درمیان ہوتا ہے۔
لورینز نے نتیجہ نکالا کہ کمپیوٹر میں کچھ شارٹ ہو گیا ہے۔ (اس وقت کے کمپیوٹر میں یہ ہونا غیرمعمولی نہیں تھا)۔ ایک ٹیکنیشن کے ساتھ مل کر اگلے کئی گھنٹے وہ چھان بین کرتے رہے۔ آخری ریلے اور آخری سوئچ تک دیکھ لیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔
پھر انہیں ایک خیال آیا۔ مک بی خود چھ ڈیسیمل تک کیلکولیشن کرتا تھا لیکن دکھاتا صرف تین ڈیسیمل تھا۔ جب انہوں نے 0.506 ڈالا تھا، وہ اصل میں 0.506127 تھا۔ کیا اتنے بڑے فرق کے پیچھے صرف یہ وجہ ہو سکتی تھی؟
اتنا کم فرق پوری کی پوری کیلکولیشن کو کیسے الٹ پلٹ کر سکتا ہے؟ یہ ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ عام سسٹم میں تقریبا ایک ہی جیسی ان پٹ دی جائے تو تقریبا ایک ہی جیسی آوٗٹ پٹ آتی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ سیب ایک خاص رفتار سے نیچے گرے لیکن ایک طرف سے تھوڑا سا چھلکا اتار لیا جائے تو پھر خراماں خراماں اڑنا شروع کر دے۔ اتنا چھوٹا فرق اتنی بڑی آوٗٹ پٹ کو کیسے بدل سکتا ہے۔
لیکن موسم کے بارہ مساوات ایسی ہی تھیں۔ ان کا آپس میں انٹر ایکشن اس سسٹم کو کیاوٹک بنا دیتا ہے۔ لورینز نے پہلا نتیجہ یہ نکالا کہ ان کی اپنی مساوات میں کچھ کمزوری ہے۔ (اس وقت کے ماہرینِ موسمیات کا خیال تھا کہ بس ایک سیٹلائیٹ اور یا کمپیوٹنگ کا ایک اگلا قدم اور موسم کی پیشگوئی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا)،
لوریمز کے اگلے کئی مہینے اعداد و شمار کے ڈھیروں کا تجزیہ کرتے گزرے۔ ان کو اپنا پہلا پیپر شائع کرنے میں مشکل ہوئی۔ اس شعبے میں دوسرے ماڈلز کی ناکامیوں کے بعد لورینز کے بات کو وزن ملنا شروع ہوا اور ان کو سنجیدگی سے لئے جانے لگا۔ انہوں نے موسم کو کنٹرول کئے جانے والے ماڈلز پر اعتراض کرنا شروع کئے اور اس کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔ بالآخر ستر کی دہائی میں ان کے خیالات کی مقبولیت بڑھی اور بٹرفلائی ایفیکٹ کی ہوشیار اصطلاح کے استعمال سے وہ اپنے سامعین تک پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
اسی کی دہائی میں دوسرے سائنسدانوں اور ریاضی دانوں نے ان کے کام کو آگے بڑھایا اور کیاوس تھیوری کو مرکزی حیثیت ملی۔ پہاڑوں اور دریاوٗں کی شکلوں سے لے کر سیوریج کے پائپوں تک۔ اشیاء کی قیمتوں کے اتار چڑھاوٗ سے لے کر جینیاتی انجینرنگ تک چیزیں سطح پر بہت مختلف لگتی ہیں لیکن ان میں کیاوس مشترک ہے۔
کیاوس تھیوری موسم کی پیشگوئی کی مشکلات کا بتاتی ہے کہ اس کو پریسائز کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ نئے سیٹلائیٹ اور سپرکمپیوٹرز کی مدد سے اگلے چند روز کے لئے اچھی پیشگوئی کی جا سکتی ہے (یہ اتنی سادہ نہیں جتنی ٹی وی پر نظر آتی ہے اور اس کی اصل رپورٹ امکانات کے اعداد سے بھری ہوتی ہے)۔ یہ چند روز کی پیشگوئی اہم ہے، نہ صرف پکنک پلان کرنے کے لئے بلکہ برے موسم سے خبردار کرنے کے لئے بھی۔ لیکن چند روز سے آگے کی پیشگوئی اپنی افادیت کھونا شروع کر دیتی ہے۔ ہم کئی دہائیوں آگے کے گرہنوں کا بتا سکتے ہیں لیکن موسم ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔
لورینز نے اس بارے میں ہمارے علم میں اضافہ لاعلمی سے پردہ اٹھا کر کروایا۔ ان کے الفاظ میں “ہم ایک طوفان کی آنکھ کو جتنا بھی گھور لیں، ہم اس کی روح کو کبھی نہیں سمجھ سکیں گے”۔
تین صدیاں پہلے ہم نے اپنے آپ کو ہومو سیپیئن کہہ کر دانائی کا خطاب دیا تھا۔ اپنے سوچنے اور جاننے کی قوت کی سیلیبریشن کے طور پر۔ موسم بھی ہماری دسترس میں لگتا تھا۔ یہ بس گرم اور سرد ہوا کے چکر ہی ہیں لیکن گیس کے لفظ کا اپنا مطلب یونانی زبان میں کیاوس ہے۔ اور اساطیرِ یونان کے مطابق، کیاوس تو وہ چیز ہے جس کو ان کے دیوتا بھی قابو نہیں کر سکتے تھے۔