Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ہوا (33) ۔ آپریشن کراس روڈ

آپریشن کراس روڈز کی تیاری کئی ماہ سے بڑی دھوم دھام سے چل رہی تھی۔ جولائی 1946 میں ہونے والا یہ پراجیکٹ اس وقت تک کی تاریخ کا سب سے بڑا سائن...


آپریشن کراس روڈز کی تیاری کئی ماہ سے بڑی دھوم دھام سے چل رہی تھی۔ جولائی 1946 میں ہونے والا یہ پراجیکٹ اس وقت تک کی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ تھا۔ اس پر آنے والی لاگت آج کی کرنسی کے حساب سے سوا ارب ڈالر تھی۔
اس “تجربے” میں امریکی بحریہ نے نیوکلئیر بم گرا کر نوے بحری جہازوں کا بیڑہ تباہ کرنا تھا اور پھر دیکھنا تھا کہ ہوتا کیا ہے۔ اس کے لئے بیالیس ہزار ملاح تھے۔ پچیس ہزار ڈیٹکٹر تھے جنہوں نے تابکاری کی پیمائش کرنا تھ۔ ڈیڑھ لاکھ فٹ کی ویڈیو ٹیپ تھی۔ یہ جگہ بکنی اٹول تھی۔ جو کہ مرجان کے جزیروں کا جھرمٹ اور جنت نظیر مقام تھا۔
ان میں سے کئی بحری جہاز وہ تھے جنہیں جرمنی اور جاپان سے پچھلے سال ہی ضبط کیا گیا تھا۔ جبکہ ۳۳ امریکی جہاز تھے۔ اگر ان تباہ ہونے والے جہازوں سے فوج بنائی جاتی تو یہ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی بحریہ ہوتی۔
یہاں پر 167 مقامی افراد بستے تھے۔ انہیں یہاں سے نکال کر کہیں اور بسایا گیا۔ تجربے کے لئے کئی اقسام کے جانور لائے گئے تھے اور انہیں بحری جہازوں پر سوار کیا گیا تھا تا کہ یہ جانچا جا سکے کہ اثرات کیا ہوتے ہیں۔
امریکی عوام نے اس پر ہزاروں غصیلے خطوط لکھے۔ بالآخر پانچ ہزار چوہے، دو سو بکریاں اور دو سو سور سمیت کئی اور جانور اس تجربے میں استعمال کئے گئے۔ بڑے جانوروں کو فوجی وردی میں ملبوس کیا گیا اور ان کی فوجی ہئیر کٹ کی گئی۔
تجربہ یکم جولائی کو صبح نو بے شروع ہوا۔ ملاحوں کو دور کر دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ دھماکے کی طرف نہیں دیکھنا (اگرچہ کم ہی لوگ اس سے باز رہے)۔ ناگاساکی کو گیارہ ماہ گزر چکے تھے اور یہ اس کے بعد پھٹنے والا پہلا جوہری ہتھیار تھا۔
آسمان پر ایک بمبار طیارہ نمودار ہوا۔ اس کے پیٹ میں بم تھا۔ ساحل سے ساڑھے تین میل دور اسے گرا دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق ہی سمندر سے پانچ سو بیس فٹ اوپر یہ پھٹ گیا۔
پانچ کروڑ پاؤنڈ ٹی این ٹی کے برابر کے اثرات ہوئے اور اس کو ساحل تک پہنچنے میں دو منٹ لگے۔ قریب کی ہر شے دھواں ہو گئی۔ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے شاک ویو سفر کرنے لگی۔ ایک ہزار گز کے اندر پانچ بحری جہاز تھے۔ یہ ڈوبنے لگے۔ ان پر سوار جانور پھنسے ہوئے تھے اور سارے مارے گئے۔ ماسوائے ایک کے۔
یہ پِگ 311 تھا جو جاپانی کروزر پر سوار تھا۔ چھ ماہ کی عمر کا یہ جانورپر بچ گیا تھا اور اسے ساحل پر لے آیا گیا۔ خیال تھا کہ نیوکلئیر اثرات اسے مار دیں گے لیکن ابتدائی ہفتوں کی بیماری کے بعد اس نے سنبھلنا شروع کر دیا۔ اور واپس نارمل پر آنے لگا۔
فوج کے لئے یہ پراپگنڈا کا اچھا اوزار بن گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بتایا جائے کہ یہ ہتھیار اتنے بھی خوفناک نہیں۔ اور ان کو مزید مہلک بنانے پر کام جاری رکھا جائے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہ کاریوں کو اس جانور کی تصاویر نے دھندلا دیا تھا۔
امریکی حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ ہتھیار جلد سے جلد ٹیسٹ کرنا تھا۔ اگلے بیس سال میں ایسے دو سو ٹیسٹ کئے گئے۔ آج اگر ایسے ٹیسٹ کرنے ہوں تو یہ زیرِ زمین ہوتے ہیں، لیکن اس وقت یہ زمین کے اوپر ہوا کرتے تھے اور ان سے فضا میں اثرات اگلی دہائیوں میں بھی موجود رہے۔
(جاری ہے)