Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ہوا (32) ۔ ہوا اور زندگی

زندگی کا سب سے بنیادی بلاک کاربن ہے، یہ آتا کہاں سے ہے؟ یہ ہوا میں ہے، کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت میں۔ لوگ درختوں کی طرف دیکھتے ہیں اور لگتا ...


زندگی کا سب سے بنیادی بلاک کاربن ہے، یہ آتا کہاں سے ہے؟ یہ ہوا میں ہے، کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت میں۔ لوگ درختوں کی طرف دیکھتے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ درخت زمین سے اگتے ہیں لیکن اگر یہ سوچا جائے کہ ان کا مادہ کہاں سے آتا ہے تو پتا لگتا ہے کہ ہوا سے۔ ہوا میں شامل کاربن ڈائی آکسائڈ درختوں میں جاتی ہے۔ درخت اس سے آکسیجن کو باہر نکال دیتے ہیں اور کاربن کو رکھ لیتے ہیں۔ اس کے مادے کو بنانے میں دوسری چیز پانی ہے۔ پودا پانی کو زمین سے کھینچتا ہے لیکن یہ پانی بھی ہوا کا حصہ تھا جو پھر زمین تک پہنچا۔ چند نمکیات کو چھوڑ کر درخت کا تمام مادہ فضا سے آتا ہے۔ پودا مضبوطی سے جڑے کاربن اور آکسیجن کے ملاپ کو چھیل کر آکسیجن کیسے نکال لیتا ہے؟ یہ جادو سورج کا ہے۔ سورج کی دھوپ اس بندھن کو توڑتی ہے۔ دھوپ پودے سے مل کر کاربن ڈائی آکسائڈ سے کاربن کو جدا کر رہی ہے اور فالتو آکسیجن کو فضا میں نکال رہی ہے اور اس کاربن کو پانی سے ملا کر وہ چیز بنا رہی ہے جو درخت کا مادہ ہے۔
درخت کا یہ مادہ دنیا میں تمام جانداروں کیلئے بنیادی بلڈنگ بلاک ہے۔ زمین پر پانی کا چکر ہوا کے مرہونِ منت ہے۔ اس کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن جیسی گیسوں کے بغیر ہماری زندگی چل ہی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ دیگر گیسوں کا بھی زندگی کی نمو سے لے کر درجہ حرارت کنٹرول کرنے تک اپنا کردار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر سترہویں صدی میں رہنے والا شخص اٹھارہویں صدی میں پہنچ جاتا تو اس کو دنیا میں بہت زیادہ فرق نہ ملتا۔ اگر وہ انیسویں صدی کے شروع میں بھی پہنچ جاتا تو بھی یہ اجنبی دنیا نہ ہوتی۔ تاہم، اگر اس سے ایک صدی بعد کے وقت میں آتا تو بیسویں صدی میں پہنچنے والے اس مسافر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔
فولاد سے بنی بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوتیں۔ دخانی جہاز تجارت اور سفر میں انقلاب برپا کر چکے ہوتے۔
انسانی زندگی میں وقت کی قدیم ترین تنظیم دن اور رات کی رہی ہے۔ یہاں پر بھی فرق مدہم پڑ رہا ہوتا۔  اور ان میں سے ہر قسم کی ترقی میں ایک کلیدی کردار گیسوں کا ہے۔ ہوا نے ہماری بنیادی بائیولوجی تو بنائی ہی ہے۔ لیکن اس کا اثر اس سے زیادہ ہے۔ اس نے انسانی تمدن کو شکل دی ہے۔
حالیہ دہائیوں میں انسان اور ہوا کے تعلق میں ایک اور تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ سترہویں صدی کا شخص جس طرح کی ہوا میں سانس لیتا تھ، وہ آج سے مختلف تھی۔ صنعتی ترقی نے اس کی کیمسٹری بدلی ہے۔
اور ہوا کے بارے میں ہمارا تصور بھی ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے۔   
سائنسدانوں حال میں ہی اس بات کو سراہنا شروع ہوئے کہ یہ فضا کس قدر پیچیدہ ہے۔ اپنی باریکیوں اور نزاکت میں ویسے ہے جیسے انسانی دماغ ہو۔
ابھی تک اس سیریز میں ہم نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ فضا نے انسانوں پر کیا اثر ڈالا ہے۔ اب ہم اس کو الٹ دیتے ہیں۔ اور یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم انسانوں نے فضا پر کیا اثر ڈالا ہے۔

(جاری ہے)