بھاپ جیسی گیسیں صنعتی انقلاب کا ایندھن بنی تھیں جبکہ میتھین یا ایسیٹائلین جیسے گیسیں اس انقلاب کی روشنی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریسٹلے کے وقت میں سائن...
بھاپ جیسی گیسیں صنعتی انقلاب کا ایندھن بنی تھیں جبکہ میتھین یا ایسیٹائلین جیسے گیسیں اس انقلاب کی روشنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریسٹلے کے وقت میں سائنس کی محفل چودہویں کے چاند کی رات کو ہوتی تھیں تا کہ شرکاء آسانی سے گھروں کو جا سکیں۔ اور یہ آخری نسل تھی جنہیں ایسے مسائل کا سامنا رہا۔ اٹھارہویں صدی میں سائنسدان کئی گیسیں دریافت کر چکے تھے جو جلتے ہوئے چمکدار روشنی پیدا کرتی تھیں۔ اور انیسویں صدی کی ابتدا کے وقت گیس کی روشنی یورپ بھر میں عام ہو چکی تھی۔ ایڈیسن کا بلب تاریخ کی سرخیاں لیتا ہے لیکن جدید دنیا کی تاریکی سب سے پہلے کوئلے کی گیس نے دور کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان اس سے قبل بھی مصنوعی روشنی استعمال کرتے رہے ہیں۔ لکڑی کی آگ، موم بتی، تیل کے چراغ ۔۔۔ لیکن یہ روشنی کا اچھا ذریعہ نہیں تھے۔ موم بتی کی ہلکی سی روشنی بہت کچھ نہیں دکھا سکتی تھی۔ اور ہر کوئی اتنا امیر نہیں تھا کہ روز موم بتی چلانا افورڈ کر سکے۔ بڑے گھر اور بزنس سال کی ڈھائی ہزار موم بتیاں جلاتے تھے۔ یہ دھواں بھی دیتی تھی اور اگر گر جائے تو آگ لگ جانے کا خطرہ بھی تھا۔
کوئلے کی گیس ان مسائل کا حل تھی۔ یہ میتھین، ہائیڈروجن اور دیگر گیسوں کا مکسچر ہے۔ اور اگر کوئلے کو آہستہ سے گرم کیا جائے تو اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میتھین اور ہائیڈروجن جلتے وقت روشن ہوتے ہیں اور موم بتی سے درجنوں گنا زیادہ روشنی پیدا کی جا سکتی تھی۔ شروع میں اس گیس کو تماشائیوں کو محظوظ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
پھر گیس جیٹ آنے لگے جو دیوار کے ساتھ لگے ہوتے تھے۔ ولیم مرڈوک نے پہلی بار گیس سے روشنی کا ایسا سسٹم اپنے گھر میں 1792 میں نصب کیا۔ پھر یہ کارخانوں میں لگایا جانے لگا۔
اس کے بعد شہری حکومتوں نے اسے سڑکوں پر روشنی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ زیرِ زمین بڑے ٹینک میں گیس اکٹھی کی جاتی تھی اور اس سے لیمپ روشن کئے جاتے تھے۔ 1823 تک لندن میں چالیس ہزار سٹریٹ لائٹس نصب کی جا چکی تھیں۔ دوسرے شہروں نے بھی اسے اپنانا شروع کر دیا۔
اس کے بعد پبلک عمارتوں کی باری تھی۔ ریلوے سٹیشن، گرجاگھر، تھیٹر ۔۔۔ اس نے ڈرامہ کو بھی تبدیل کر دیا۔ اداکار اب نمایاں ہو سکتے تھے۔
اس کے بعد یہ دیہات تک پھیلنے لگا۔ سستی روشنی نے معاشرے پر اثرات مرتب کئے۔ جرائم کم ہو گئے۔ اندھیرے کے نقاب میں چھپا نہیں جا سکتا تھا۔ راتیں بدلنے لگیں۔ ریسٹورنٹ اور تفریح کے مقامات اب رات کو کھل سکتے تھے۔ فیکٹریوں کو سرِشام بند ہونے کی مجبوری نہیں رہی۔ سردیوں میں بھی اتنا ہی کام کیا جا سکتا تھا جتنا گرمیوں میں۔ ملازمت کے سٹینڈرڈ اوقات بننے لگے۔ کئی جگہوں پر شفٹ میں کام کیا جانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈمنڈ ڈیوی نے 1836 میں ایسیٹائلین دریافت کی۔ یہ بہت روشن جلتی تھی اور اس کا استعمال لائٹ ہاؤس، بندرگاہوں اور سٹریٹ لائٹ کے طور پر ہونے لگا۔ اسے غاروں اور کانوں میں بھی لے جایا جانے لگا۔ اگلے سالوں میں گاڑیوں اور سائیکلوں میں یہی ہیڈلائٹ کے طور پر استعمال ہوئی۔ فورڈ کی مقبول ترین گاڑی ماڈل ٹی کی ہیڈلائٹ اسی طرز کی تھی۔ ایک اثر یہ تھا کہ اس سے لہسن جیسی بو آتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ اس کے موم بتی کے مقابلے میں فوائد تھے لیکن یہ پرفیکٹ نہیں تھی۔ تیز شعلے کمرے کی آکسیجن نگل جاتے تھے تو تھیٹر میں رات کو ڈرامہ دیکھنے کے بعد سردرد کی شکایت عام تھی۔ گیس لیک ہونے پر دم گھٹ سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں گیس کی جگہ بلب آنے لگے۔ ان کی بو نہیں ہوتی تھی، آکسیجن نہیں چراتے تھے اور زیادہ روشن تھے۔ یہ بغیر آگ کے روشنی تھی۔
اس کے اندر عام طور پر ٹنگسٹن کی تار ہوا کرتی تھی۔ اس میں بجلی بھگائی جائے تو یہ چمک اٹھتی تھی۔ لیکن اگر آکسیجن مل جائے تو یہ جلا سکتی تھی۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے بلب سے ہوا نکالی جانے لگی۔ اندر خلا ہو تو جلنے کا امکان نہیں رہے گا۔ لیکن اس سے ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا۔ پریشر کے بغیر تار بخارات میں بدلنے لگتی تھی اور بلب کو سیاہ کر دیتی تھی۔ اگلا قدم یہ تھا کہ اندر نائیٹروجن یا کوئی اور غیرفعال گیس بھری جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلب نے شعلے کو ختم کر دیا تھا۔ کچھ جدید طریقوں نے تار کو بھی ختم کر دیا۔ زرد رنگ کی سوڈیم سٹریٹ لائٹ ویپر لائٹنگ کی ایک مثال ہے۔ اس میں سوڈیم کے ایٹموں کی گیس سے بجلی گزار کر ان کے الیکٹران کو ایکسائیٹ کیا جاتا ہے اور جب یہ واپس آتے ہیں تو فوٹون خارج کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیون لائٹ بھی اسی طریقے سے روشنی پیدا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی بھی نوبل گیس استعمال کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلی بار پیرس میں 1912 میں اسے اشتہار کے ایک سائن بورڈ کے لئے استعمال کیا گیا جو کہ حجام کی دکان کا تھا۔ ابتدائی کمپیوٹر اور کیلکولیٹر بھی نیون لائٹ استعمال کرتے تھے کیونکہ ان میں عام بلب کی نسبت توانائی کم خرچ ہوتی ہے اور یہ گرم نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم رات کو روشنی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روشنی کی آلودگی کی شکایت کی جاتی ہے جس وجہ سے ہمارا آسمان کا نظارہ ماند پڑ چکا ہے اور ہم ستارے نہیں دیکھ پاتے۔ رات کی اچھی نیند کے لئے اندھیرا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کے لئے یہ حیران کن ہوتا۔
جدید دنیا میں تاریکی ایک نایاب جنس بن گئی ہے۔
(جاری ہے)