لارڈ ریلے اور ولیم رامسے نے ہوا سے پرسرار گیس الگ کر لی تھی۔ یہ ہوا کا ایک فیصد حصہ تھا جس کے بارے میں کسی کو پہلے علم نہیں تھا۔ اب ان دونوں...
لارڈ ریلے اور ولیم رامسے نے ہوا سے پرسرار گیس الگ کر لی تھی۔ یہ ہوا کا ایک فیصد حصہ تھا جس کے بارے میں کسی کو پہلے علم نہیں تھا۔
اب ان دونوں نے اس گیس کی خاصیتوں کی تفتیش شروع کی۔ یہ بے ذائقہ، بے رنگ اور بغیر بو کے تھی۔ اس گیس کی خاص بات اس کی صوتی خاصیت تھی۔ آواز کی لہریں بنیادی طور پر گیس کے مالیکیول پر سفر کرنے والی توانائی کی نبض ہے۔ زیادہ اور کم پریشر کے پیٹرن ہیں جن کو ہمارے کان آواز کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ اور ان کی رفتار کا تعلق اس گیس کے مالیکیولز کے وزن اور شکل سے ہے جس میں یہ سفر کر رہے ہیں۔
اب یہاں پر فزکس کچھ خوفناک ہو جاتی ہے۔ (اس بارے میں مجھ پر بھروسہ کریں)۔ لیکن سادہ الفاظ میں یہ بات کہ رامسے اور ریلے نے نامعلوم گیس میں سے آواز کی رفتار دو الگ کنڈیشن میں معلوم کی اور ان کا تناسب نکالا۔ اس طرح سے گیس کے مالیکیول کی شکل کا پتا لگ جاتا ہے۔ کیونکہ اس تناسب کا انحصار مالیکیول کے سائز اور پیچیدگی پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ یا امونیا کے بادل سے گزرنے والی آواز میں کاربن، آکسیجن، نائیٹروجن یا ہائیڈروجن کے مالیکیول ایک دوسرے کے مقابلے میں سپرنگ کی طرف گھومتے ہیں اور ان اضافی حرکات سے آواز کی توانائی منتشر ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور امونیا میں یہ تناسب 1.3 کا ہوتا ہے۔ (اس کی وجہ خوفناک فزکس ہے)۔ جبکہ سادہ گیس، جیسا کہ ہائیڈروجن اور نائیٹروجن (جن میں دو مالیکیول ہیں) میں حرکت کی گنجائش کم ہوتی ہے تو یہ تناسب 1.4 ہوتا ہے۔ جبکہ اس نامعلوم گیس میں یہ 1.67 تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ دو ایٹموں سے زیادہ سادہ تھی۔ یعنی اس کے مالیکیول میں ایک ہی ایٹم تھا۔ ایسا کسی بھی معلوم گیس کے ساتھ نہیں تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سب سے بڑی حیران کن بات ایک اور تھی۔ رامسے اور ریلے اس کی کیمیائی خاصیتیں دیکھنے کے لئے اس کو دوسرے عناصر کے ساتھ ری ایکشن کروانے کی کوشش کرتے رہے۔ آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بعد گندھک، فاسفورس اور پوٹاشیم کی کوشش کی۔ کچھ نہ ہوا،۔ کلورین اور تیزابوں اور دوسری چیزوں کے ساتھ ملاپ ناکام رہے۔ انہوں نے اپنی کیمیکلز کی الماری کی ہر شے اس پر آزما کر دیکھ لی۔ اس گیس کو کسی میں دلچسپی نہیں تھی۔
اگست 1894 تک ان کو پتا لگ چکا تھا کہ ان کے پاس نئی گیس ہے۔ اور غالباً ایک نیا عنصر ہے۔ لیکن ابھی نئے عنصر کے دعوے سے ہچکچا رہے تھے کیونکہ یہ ایک بڑا دعویٰ ہوتا۔ انہوں نے صوتی تناسب اور ری ایکشن نہ کرنے کی خاصیت کے تجربات کے نتائج شائع کر دئے لیکن اس سے آگے ابھی نہیں گئے۔
لیکن ان کے ہم عصر سائنسدانوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ نتائج کس طرف اشارہ کر رہے ہیں اور انہیں یہ پسند نہیں آ رہا تھا۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس پرسرار گیس کا پہلے پتا نہیں لگا؟ اگر دعوے کے مطابق یہ ہوا کا ایک فیصد تھی تو اس کا مطلب یہ کہ ہر انسان ہر روز اس کے 150 گرام سانس کے ساتھ لے جاتا ہے۔ اور اگر یہ واقعی نیا عنصر تھا تو پھر اس کو عناصر کے پیریوڈک ٹیبل میں جگہ کہاں پر دی جائے؟ اس پرسرار گیس کو سائنسدان آرگون کہنے لگے تھے (جس کے معنی کاہل کے تھے)۔ اس کی کثافت کو دیکھتے ہوئے ریلے نے حساب لگایا تھا کہ اس کا ایٹمی وزن 40 ہے۔ یہ کلورین اور پوٹاشیم کے بیچ میں تھا اور یہ دونوں انتہائی جلد ری ایکشن کرنے کی وجہ سے بدنام عنصر تھے۔ اس سب کی کوئی تک نہیں بن رہی تھی۔ پیریوڈک ٹیبل کے بانی مینڈیلو نے آخر میں اس پر اپنی رائے دی۔ انہوں نے آرگون کو مضحکہ خیز قرار دیا اور خیال پیش کیا کہ پرسرار گیس نائیٹروجن کی تین مالیکیول والی شکل ہے جو کسی طرح سے بن گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوری 1895 میں ریلے اور رامسے کو اس دریافت پر سمتھسونین پرائز دیا گیا۔ یہ دس ہزار ڈالر (آج کے مطابق پانچ کروڑ روپے) کی رقم تھی اور 218 شرکاء میں سے انہیں اپنے پیپر پر دی گئی تھی۔ تاہم یہ فتح سودمند ثابت نہ ہوئی۔ ان کے مخالفین رائے تبدیل کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک ناقد کے مطابق، “پیریوڈک ٹیبل کیمسٹری کی بنیاد ہے اور اس کے لئے لازم ہے۔ کوئی بھی چیز جو اس کے لئے خطرہ بنے، وہ کیمسٹری کے لئے خطرہ ہے”۔ ریلے اور رامسے نے اپنی دریافت سے پیدا ہونے والی ہلچل پر معذرت کی لیکن اپنے پیپر میں کسی بھی تبدیلی سے انکار کر دیا۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ رامسے نے پھر ایک اور گڑبڑ کر کے معاملے کو مزید خراب کر دیا۔ ابھی آرگون پر تنازعہ سمٹا نہیں تھا کہ انہوں نے ایک اور نئی دریافت کر لی۔
(جاری ہے)