Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ہوا (24) ۔ قوانین

گے لوساک وہ سائنسدان تھے جو غبارے پر سواری کے دوران فضا کی کیفیت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اگست 1804  کو انہوں نے پرواز کے دوران زمین کے مقناطیس...


گے لوساک وہ سائنسدان تھے جو غبارے پر سواری کے دوران فضا کی کیفیت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اگست 1804  کو انہوں نے پرواز کے دوران زمین کے مقناطیسی فیلڈ کی پیمائش کا کام کیا جس کو مختلف بلندیوں پر ناپا گیا۔ انہوں نے معلوم کیا کہ درجہ حرارت اور پریشر کے برعکس مقناطیسی فیلڈ کے زور میں تبدیلی نہیں آتی۔
گے لوساک کی اگلی دلچسپی فضا کی کیمسٹری میں تھی۔ انہوں نے مختلف بلندیوں سے ہوا اکٹھی کر کے فلاسک میں بھری لیکن اس دوران آکسیجن میں کمی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔ تین ہفتے بعد انہوں نے یہ تجربہ پھر دہرایا اور تئیس ہزار فٹ کی بلندی تک گئے۔ یہ اگلی نصف صدی تک کا ریکارڈ رہا۔ اس بار انہوں نے حواس بحال رکھے اور کئی بوتلوں میں ہوا بھرنے میں کامیاب رہے۔ بعد میں کئے جانے والے تجزیے نے بتایا کہ اگرچہ ہوا کم ہے لیکن نائیٹروجن، آکسیجن اور دوسری گیسوں کے تناسب میں فرق نہیں۔
فضائی کیمسٹ اس سے زیادہ بلندی کی کوشش کرتے رہے جو کہ اب ایسے غباروں کی مدد سے تھا جس میں کوئی سوار نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا میں بلندی پر تبدیلی آتی ہے۔ ہوا کی چار تہیں دریافت ہوئیں جو پیاز کی تہوں کی طرف زمین کے گرد ہیں۔ ہم ٹروپوسفئیر میں رہتے ہیں جو کہ زمین سے تقریبا دس میل بلندی تک ہے (اس کی ٹھیک موٹائی کا انحصار اس پر ہے کہ موسم کونسا ہے اور کس عرض بلد پر ہیں)۔ اس کے بعد سٹریٹوسفئیر آتا ہے۔ اس میں اوزون بھی ہے اور یہ تیس میل بلندی تک جاتا ہے۔ پھر میسوسفئیر ہے۔ یہاں شہابیے جلتے ہیں۔ اور یہ پچاس میل بلندی تک ہے۔ اس کے بعد مہین سا تھرموسفئیر ہے۔ یہاں پر اورورا ہوتے ہیں اور یہ پانچ سو میل تک جاتا ہے۔
اگر فرض کریں کہ کوئی اینٹی گریویٹی گاڑی ہو جس سے اس کی سیر موٹروے کی طرح جا سکے تو یہ سات گھنٹے کا سفر ہو گا لیکن بورنگ سا ہو گا۔ زمین کی فضا کا نصف وزن پہلے چار میل میں ہی ہے۔ اور سات میل بلندی پر آکسیجن کی سطح سمندری لیول کی نسبت ایک چوتھائی رہ چکی ہو گی۔ اور یہاں پر زندگی برقرار نہیں رہ سکتی۔ ہم ہوا کے انتہائی باریک سے چھلکے میں رہتے ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے یہ اس سے باریک ہے جتنا سیب پر اس کا چھلکا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ گے لوساک نے گیس کا ایک اور قانون بھی دریافت کیا جو بتاتا ہے کہ اگر گیس پر پریشر بڑھے تو درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت کے کیمسٹ اب یہ نوٹ کر رہے تھے کہ گیس کے ہر قانون میں پریشر، درجہ حرارت اور حجم کا تعلق ہے۔ سوال یہ تھا کہ آیا کوئی ایک ایسا قانون تھا جو اس سب کو یکجا کر دے۔ اس پر ایک نسل لگ گئی لیکن پھر 1830 کی دہائی میں سائنسدانوں نے “آئیڈیل گیس کا قانون” دریافت کر لیا جس کو اس مساوات سے لکھا جاتا ہے
PV=nRT
اگرچہ یہ فارمولا بظاہر متاثرکن نہیں لگتا لیکن یہ گیس کے بارے میں بہت کچھ بتا دیتا ہے۔ اور گیس کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ دیتا ہے۔ اور اس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق ہر قسم کی گیس پر ایک ہی جیسا ہے۔ ہائیڈروجن کے ایٹم ننھے سے ہیں جبکہ ریڈون کے بڑے ہیں۔ نائیٹروجن کے بادل کسی کو کچھ نہیں کہتے جبکہ کلورین کے بادل انتہائی زہریلے ہیں۔ لیکن یہ قانون جمہوری ہے اور بتاتا ہے کہ کسی پر بھی پریشر ڈالیں تو یہ گیسیں ویسے ہی ردِعمل دیں گی۔ ٹھوس اور مائع کے معاملے میں ایسی یکسانیت نہیں ہوتی لیکن گیسیں فزیکل خاصیت میں ایک سی ہیں۔
اور ایسی سائنسی دریافت انسانی ذہن کی معراج ہے۔ دنیا میں گڑبڑ اور کنفیوژن کے سمندر کے درمیان سے اس کی انمٹ روح کو تلاش کر لینا۔ یہ ایک مساوات وہ کام کر دیتی ہے جو کم ہی سائنسی اصول کر پاتے ہیں۔ ہر گیس کو صرف پانچ حروف سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کو پرفیکٹ گیس لاء بھی کہا جاتا ہے اور یہ ایک اچھا نام ہے۔ یہ ہمیں اشارہ دیتا ہے کہ سب کے درمیان میں کچھ لافانی اور ایبسولیوٹ ہے۔ اس دنیا کے کام کرنے کا میدان زبردست اور پرفیکٹ طریقے سے کام کرتا ہے۔
(جاری ہے)