Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ہوا (22) ۔ پرواز

جہاں پر ہوا کی سمجھ نے مادی ترقی کے دروازے کھولے، وہاں پر اس نے انسانی تجسس کے جذبے کو بھی نئے سرے سے چھیڑا۔  “ہمارا سیارہ ہوا کے غلاف سے ڈھ...


جہاں پر ہوا کی سمجھ نے مادی ترقی کے دروازے کھولے، وہاں پر اس نے انسانی تجسس کے جذبے کو بھی نئے سرے سے چھیڑا۔  “ہمارا سیارہ ہوا کے غلاف سے ڈھکا ہوا ہے”۔ اس نے ہمیں زمین کو دیکھنے کا نیا رخ دیا۔ اور اٹھارہویں صدی میں ایک پرانا انسانی خواب ممکن ہوا۔ ہم پہلی بار ہوا بردوش ہوئے اور پروں کے بغیر اڑنے کے قابل ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بیالیس سالہ جوزف مشل مونٹگوفر نے زندگی میں کامیابیاں نہیں دیکھی تھیں۔ یہ 1782 کا ایک دن تھا جب وہ اپنی دیکھ رہے تھے کہ ان کی بیوی نے کپڑے سکھانے کے لئے آگ کے قریب رکھے ہیں۔ یہ ہوا سے اڑ رہے تھے اور جب آگ کا شعلہ بھڑکتا تھا تو یہ بھی زیادہ اونچا چلے جاتے تھے؟ ایسا کیوں؟ ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر وہ ایسی “ہوا کا بڑا تھیلا” بنا سکیں تو کیا اس کی مدد سے خود بھی اوپر کی طرف جا سکیں گے؟ انہوں نے پہلی بار غبارے کا خواب دیکھا تھا۔
اور وہ اس کے ساتھ ہی بغیر سوچے سمجھے اس پر جٹ گئے۔ ایک لکڑی کا ڈبہ بنایا اور اسے ریشم کے کپڑے سے ڈھک دیا۔ چار فٹ کے ڈبے کا وزن پانچ پاؤنڈ تھا۔ اسے جب گھر کے اندر گرم دھواں دیا تو یہ اٹھ کر چھت سے جا لگا۔ یہ تجربہ باہر کیا تو یہ ستر فٹ اونچائی تک چلا گیا۔
جوزف نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ملکر بڑا ڈبہ بنایا جو کہ پندرہ پاؤنڈ کا تھا اور اسے اڑایا۔ اس کی رسی ٹوٹ گئی۔ یہ ایک میل تک دور گیا۔ دونوں بھائیوں نے اس کا پیچھا کیا۔ ڈبہ تباہ ہو گیا لیکن دونوں بھائی اب پرجوش تھے۔
اگلے مہینوں نے انہوں نے زیادہ بڑا غبارہ بنایا۔ ان کو امید تھی کہ یہ انہیں مشہور کر دے گا۔ اس بار یہ تیس فٹ قطر کا کرہ تھا جس پر ریشم کو کاٹ کر باندھا گیا تھا اور کاغذ سے لائننگ کی تھی۔ پہلے اسے بھاپ سے اڑانے کی کوشش کی لیکن یہ کاغذ کو گیلا کر دیتی تھی۔ پھر ہائیڈروجن کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ وافر مقدار میں نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ اس کے چھوٹے مالیکیول نکل جاتے تھے اور غبارہ پچک جاتا تھا۔ 1783 میں انہوں نے گرم ہوا کا استعمال کیا۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ جوزف کو کیمسٹری کا کم علم تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ہوا کو گرم کر کے اس میں دھواں شامل کر دیں تو اس کی خاصیت بدل جائے گی۔ (دھواں اصل میں گیس نہیں بلکہ ہوا میں ٹھوس ذرات کے معلق ہونے کی وجہ سے بنتا ہے، جیسا کہ گدلا پانی ہو)۔ ان کا خیال تھا کہ غبارہ کے اٹھنے کی وجہ صرف دھواں ہے۔ وہ اپنے غبارے میں “تھیلے میں بادل” کہتے تھے۔ جون 1783 میں جب عوامی مظاہر کیا تو انہوں نے ایسی آگ بنائی جو کہ بہت دھواں دے۔ اس کیلئے اس میں بھوسہ، اون، خرگوش کی کھال اور پرانے جوتے بھی ڈالے۔
ہزاروں لوگ یہ تماشا دیکھنے آئے تھے۔ غبارے نے شکل اختیار کی اور پھر ہوا میں بلند ہو گیا۔
اس مظاہرے نے جوزف مونٹگوفر اور ان کے بھائی کو مشہور کر دیا۔ لیکن اس کا ایک اور اثر یہ تھا کہ یہ کام کرنے دوسرے لوگ کود پڑے۔ اور اس میں دو بھائی تھے جو پیرس کے قریب رہائش پذیر تھے۔ یہ این جین رابرٹ اور نکولس لوئی رابرٹ تھے۔ انہوں نے طریقہ بنایا جس سے غبارے سے ہوا نہ نکلے۔ اس کے لئے تارپین کے تیل میں ربڑ حل کر کے ریشم پر اس کی وارنش کی گئی۔ اب اس غبارے میں ہائیڈروجن بھی بھری جا سکتی تھی۔ ان بھائیوں نے ایک کیمسٹ، ژاک چارلس کی مدد لی جس نے بڑی مقدار میں ہائیڈروجن بنانے کا مسئلہ حل کیا۔ اس کے لئے گندھک کے تیزاب کو استعمال کیا گیا جسے کسی دھات پر ڈال کر گیس مل جاتی تھی اور اسے چمڑے کی ٹیوب کے ذریعے غبارے میں بھرا جاتا تھا۔ اگست 1783 کے چار دنوں میں انہوں نے 34000 لٹر ہائیڈروجن کو پانچ سو کلوگرام زنگ آلود لوہے کی مدد سے حاصل کر لیا۔
اس کا خرچ ادا کرنے کے لئے انہوں نے اپنے مظاہرے کے لیے ٹکٹ رکھی۔ اور یہ پندرہ میل کا سفر کر کے پیرس کے قریب ایک کھیت میں جا گرا۔ یہاں پر کسانوں نے اسے کوئی بھوت سمجھا اور اس پر کلہاڑیوں اور بیلچوں سے حملہ آور ہو کر اسے “مار” دیا۔ لیکن اہم فتح حاصل کر لی گئی تھی۔  
اس خبر کو سنتے ہی مونٹگوفر بھائیوں نے اگلی پرواز کی تیاری پکڑ لی۔ اس کا خوبصورت باہری کور بنوایا گیا۔ اس بار بھائیوں نے طے کیا کہ جانوروں کو اس میں بھیجا جائے گا۔ ایک بھیڑ، ایک مرغا اور ایک بطخ۔ اس کے نیچے ٹوکری لگائی گئی۔ تماشائیوں میں شاہ لوئی سولہ بھی تھے۔ چند منٹوں میں غبارہ پھول چکا تھا۔ اسے پندرہ لوگوں نے پکڑا ہوا تھا۔ اسے چھوڑا گیا تو غبارہ ہچکولے کھاتا بلند ہونے لگا۔ یہ دو میل دور جا کر اترا۔ جانور محفوظ رہے۔
ایک طرف رابرٹ اور دوسری طرف مونٹگوفر۔۔۔ دونوں نے اب اگلی بڑی فتح کے لئے کام شروع کر دیا۔ یہ پہلی بار انسانی پرواز کا تھا۔ بادشاہ نے تجویز کیا کہ اس کے لئے دو سزا یافتہ مجرموں کو استعمال کیا جائے۔ لیکن دونوں ٹیموں نے اس خیال کو پسند نہیں کیا۔ اس کارنامے کا سہرا سزایافتہ لوگوں کے سر نہیں بندھنا چاہیے تھا۔
رابرٹ بہتر انجینر تھے اور ان کا سائنس کا علم بھی بہتر تھا۔ لیکن آخر میں جنون نے اسے ہرا دیا۔ 21 نومبر 1783 کو مونٹگوفر نے اپنے دو دوستوں کو نئے نارنجی لفافے میں بٹھایا۔ اور یہ پیرس کے اوپر محوِپرواز ہو گئے۔
اس سے پہلے اربوں لوگوں نے آسمان کو دیکھا تھا۔ پرندوں کو اڑتے دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں کا دل کیا ہو گا کہ کبھی ایک بار انہیں بھی ایسا کرنے کا مواقع ملے لیکن یہ خوب پہلی بار روزیر اور ان کے ساتھی کے لئے پورا ہوا۔ یہ پانچ میل کی پرواز تھی۔ اور اہم سنگِ میل عبور کر لیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہفتے بعد رابرٹس کی ٹیم نے یہ کام کر لیا۔ خیال ہے کہ پیرس کی آدھی آبادی انہیں دیکھنے امڈ آئی تھی۔ دونوں بھائی خود اس میں سوار ہوئے۔ اور چونکہ ہائیڈروجن اڑنے کے لئے بہتر ہے تو یہ پرواز دو گھنٹے جاری رہی۔ غروبِ آفتاب کے قریب یہ بیس میل دور جا کر اترے۔ چارلس نے اس کے فوری بعد ہی دوسری پرواز اکیلے کی۔ اس بار دس ہزار فٹ کی بلندی تک گئے اور اسی روز دوسری بار سورج غروب ہوتے دیکھا۔

(جاری ہے)