وہ کونسی دریافت ہے جس کی مدد سے ہم نے وہ پہاڑ گرا دئے جو زمین پر اس وقت سے تھے جب زمین پر ڈائنوسار گھوما کرتے تھے، شہر بسا لئے، بلند و بالا ...
وہ کونسی دریافت ہے جس کی مدد سے ہم نے وہ پہاڑ گرا دئے جو زمین پر اس وقت سے تھے جب زمین پر ڈائنوسار گھوما کرتے تھے، شہر بسا لئے، بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر لیں، سفر آسان کر دیا، برِاعظم کاٹ کر تجارت کے نئے راستے بنا لئے، زمین کا سینہ چیر کر اس سے دولت نکال لی اور ساتھ ساتھ لاکھوں انسان مار دئے اور مفلوج کر دئے؟ یہ کیمسٹری کے ایک ری ایکشن کی کہانی ہے۔ سینکڑوں ایجادات کرنے والے دُکھی سائنس دان کی۔ اعلیٰ ترین انعام کی اور ساتھ ساتھ ہم سب کی۔
صدیوں تک دھماکہ کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی طریقہ رہا تھا؛ بارود۔ کاربن، سلفر اور پوٹاشیم نائیٹرینٹ کو ملایا۔ اس ری ایکشن سے نائیٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پوٹاشئم سلفائیڈ بنتے ہیں۔ چھ مالیکیول مل کر گیس کے چار مالیکول پیدا کرتے ہیں اور یہ ری ایکشن سرعت سے ہوتا ہے۔ بس، یہی دھماکہ ہے۔ تیز رفتار ری ایکشن کی وجہ سے نکلنے والی گیس جلد پھیلتی ہے اور اپنے ساتھ گولی کو بھی تیزرفتاری سے لے جاتی ہے۔
اس کا متبادل پہلی بار سوبریرو نے 1846 میں دریافت کیا جو کہ نائیٹرو تھا۔ سوبریرو کو خطرناک کیمیکلز سے کھیلنے کا شوق تھا۔ ایک تجربے میں انہوں نے گلیسرین، نائیٹرک اور سلفیورک ایسڈ کو ملا کر زیتون کے تیل کی طرح کی ایک مائع بنائی۔ یہ نائیٹروگلیسرین (یا نائیٹرو) تھا۔ اس کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں ڈال کر ایک شعلے پر رکھا۔ اگلے ہی لمحے وہ شیشے کے ٹکڑے اپنے چہرے اور ہاتھوں سے نکال رہے تھے۔ یہ ری ایکشن گیس کے 36 مالیکول خارج کرتا تھا اور بارود والے ری ایکشن سے دس لاکھ گنا تیز ہوتا تھا۔ لیکن سوبریرو اس ری ایکشن کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
الفریڈ نوبل کے والد کی گولے، تارپیڈو اور دوسرے ہتھیار بنانے کی فیکٹری تھی, روس کو ہتھیار سپلائی کرتے تھے لیکن پہلے آتش زدگی اور پھر کریمیا کی جنگ بندی کے سبب دیوالیہ ہونا پڑا تھا۔ الفریڈ نے نائیٹرو کی طاقت انہوں نے اپنے استاد کے تجربے میں دیکھی تھی۔ اتنی چھوٹی مقدار میں اتنی طاقت سے حیرانی کے بعد ان کے ذہن میں سوال آیا کہ اس کو قابو کیسے کیا جائے۔ کیوں نہ ناٗئٹرو کو ٹریگر بارود کے ساتھ کیا جائے؟ پہلے بارود سے کیا گیا دھماکہ اور اس کے دھماکے کے بعد نائٹرو کا ری ایکشن۔ تاریخ میں پہلی بار دو اقساط پر مشتمل دھماکہ کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ پہلی بار اپنے بھائی کو اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے فیکٹری کے نکاس کے آگے پانی کے نیچے رکھ کر اس کا تجربہ کیا۔ زبردست دھماکہ ہوا۔ اپنے بھائی کے ساتھ گٹر کے پانی میں لتھڑے الفریڈ خوشی سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔
اگلے ایک سال اس پر مزید تجربے کرنے کے بعد اور تبدیلیاں کرنے کے بعد یہ تجربہ پانی کے باہر کیا لیکن ناکام رہے۔ بعد میں احساس ہوا کہ یہ تو دراصل پریشر کا مسئلہ تھا جو پانی کے نیچے تو مل جاتا ہے۔ پانی کے اوپر نہیں۔ کئی سال اس کے ساتھ کھیلنے کے بعد بلاسٹنگ کیپ بنائی اور یہ بلاسٹنگ آئل تھا۔
یہ دریافت دنیا کی اہم ترین نہر، سوئز کینال کو تعمیر کرنے کے بھی کام آئی اور اس کے حادثات سے اموات بھی ہوئیں کیونکہ یہ محفوظ نہیں تھی۔ نائیٹرو کے ڈرم میں ہونے والے حادثے میں ایک دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جن میں ان کے بھائی بھی تھے۔ وہی بھائی جن کو انہوں نے پہلے بار نائیٹرو اور بارود کی طاقت دکھائی تھی۔
کئی اور حادثات کے بعد نوبل ایک ناپسندیدہ شخصیت بن چکے تھے۔ کوئی ان کے تجربت کو اپنے قریب نہیں پھٹکننے دیتا تھا۔ تجربات کیلئے ان کو ایک کشتی کو پانی میں لے جا کر اپنی تجربہ گاہ اس پر سیٹ اپ کرنا پڑی۔ 1867 میں انہوں نے اس میں ایک نرم سفید چکنی مٹی (کیسلگوہر) کے اضافے سے اس کیمیکل کے خطرناک رویے کو کنٹرول کر لیا۔ یہ ڈائنامائیٹ تھا جو انتہائی کامیاب رہا۔ اتنا کامیاب کہ یہ تجارتی نام انگریزی زبان کا حصہ بن گیا۔ یہ کان کنی، تعمیرات، پہاڑ کاٹنے اور بندرگاہوں کی تعمیر بھی کر سکتا تھا اور بم اور باردوی سرنگیں بنانے کیلئے جنگوں کا ہتھیار بھی تھا۔
اس کی دھماکہ خیز اور جنگی صلاحیت نے نوبل کو دنیا میں اچھی شہرت نہیں دی۔ نہروں اور سرنگوں میں حادثات میں مرنے والوں پر بھی انگلیاں ان پر اٹھتی تھیں۔ نوبل کے 355 پیٹنٹ تھے۔ کیمسٹری کا پیٹنٹ پر عملدرآمد کروانا مشکل کام ہے۔ ان کی زندگی کا بہت سا وقت بہت سے نقالوں کے خلاف عدالتوں میں کیس لڑتے گزرا۔ دوسری طرف ان کی ایجاد کی مانگ اتنی تھی کہ اکیس ممالک میں تئیس فیکٹریاں بنا چکے تھے۔
اس دولت نے نوبل کو خوشی نہیں دی۔ ان کو افسانے لکھنے کا شوق تھا۔ اسی کی خواہش کرتے رہے لیکن کر نہ پائے۔ دنیا سے الگ ہوتے گئے۔ اپنے بھائی کی موت کا بھی افسوس تھا جس کا الزام اپنے آپ کو دیتے رہے اور جنگ سے منافع پر بھی اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے رہے۔ اپنے بارے میں جب ان کو لکھنے کیلئے کہا گیا تو لکھا، “الفریڈ نوبل۔ ایک ناکام اور بدنصیت انسان۔ کتنا اچھا ہوتا کہ پیدائش کے وقت میری پہلی چیخ پر ہی مہربان ڈاکٹر میرا گلا دبا دیتا۔ واحد خوبی: اپنے ناخن صاف رکھتا ہوں۔ بڑی خرابی: نہ فیملی ملی۔ نہ خوشی اور نہ ہی اچھا معدہ۔ خواہش: زندہ نہ دفنا دیا جاوٗں”۔
لیکن دنیا ان سے کتنی نفرت رکھتی ہے، اس کا اندازہ انہیں ابھی ہونا تھا۔ ان کے بھائی کا انتقال 1888 میں ہوا۔ فرانس کے اخبار کو غلط فہمی ہوئی کہ الفریڈ نوبل فوت ہو گئے ہیں۔ اس نے سرخی لگائی، “موت کا سوداگر خود موت کا شکار”۔ اس کو دیکھ کر ان کا ری ایکشن تھا، “میرے کام سے بنائی سرنگیں، بندرگاہیں، ریل کی پٹریاں، معدنی ذخائر کی دولت۔ یہ تو کسی کو یاد نہیں، میں صرف ایک قابلِ نفرت قاتل ہوں”
اپنی وصیت تیار کروائی جس میں فنڈ قائم کیا اور سائنس میں اعلیٰ کام کرنے والوں کے لئے انعام رکھا۔ وہ جو فزکس، کیمسٹری، میڈیسن میں کچھ نیا کریں۔ اپنی افسانہ نگاری کے شوق کی وجہ سے لٹریچر میں۔ اپنے موت کے سوداگر کی شہرت کا دھبہ اتارنے کے لئے امن کا انعام۔
نوبل 10 دسمبر 1896 کو اپنی کرسی میں مردہ پائے گئے۔ ان کی وصیت ان کے لواحقین اور رشتہ داروں کو پسند نہیں آئی۔ زندگی میں نقالوں کے خلاف جنگ کی طرح مرنے کے بعد بھی ان کی وصیت پر وکیلوں کا عدالتوں میں جھگڑا چلتا رہا جس کا فیصلہ کئی سال میں ہوا۔
نوبل انعام کا ادارہ ایک سینکڑوں ایجادات کرنے والے دکھی اور بوڑھے شخص کیلئے اپنی بدنامی کا داغ مٹانے کی کوشش تھا۔ اس تصفیے کے طے ہو جانے کے بعد اگلا مرحلہ ان کی دولت کو فرانس سے سویڈن منتقل کرنے کا تھا۔ الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر تو ہوا نہیں کرتے تھے۔ گھوڑے کی بگھی اور ٹرین پر ایک ریوالور اور بریف کیس کے ساتھ سفر کرنا واحد حل تھا۔ اس طرح کے کئی چکروں کے بعد یہ دولت سویڈن تک منتقل ہوئی، 10 دسمبر 1901 کو نوبل انعام دینے کا آغاز ہوا۔
نائیٹرو گلیسرین کے چار مالیکیول انتہائی سرعت سے ری ایکشن کرتے ہیں تو گیس کے چھتیس مالیکیول بن کر پھیلتے ہیں۔ کیمسٹری میں بس اتنی سی حقیقت ہے۔ اس پر قابو پا کر ہم اس سے بہت طرح کے کام لیتے رہے ہیں۔ ہم نے وہ پہاڑ گرا دئے جو زمین پر اس وقت سے تھے جب زمین پر ڈائنوسار گھوما کرتے تھے، شہر بسا لئے، بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر لیں، سفر آسان کر دیا، برِاعظم کاٹ کر تجارت کے نئے راستے بنا لئے۔ لاکھوں انسان مار دیے اور مفلوج کر دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاپ کے انجن اور دھماکہ خیز مواد نے صنعتی انقلاب کو مہمیز لگائی۔ لیکن یہ اس دور کی اکیلی اہم ٹیکنالوجی نہیں تھیں۔ گیس کی ٹیکنالوجی میں بھی ایک اہم ترقی ہائی گریڈ دھاتیں، جیسا کہ فولاد، بنانا تھا۔ فولاد اور گیس میں کچھ زیادہ مشترک نہیں لگتا لیکن پل، بلند و بالا عمارتیں، عظیم بحری جہاز نہ بنائے جا سکتے اگر ہم ہوا کی کیمسٹری کو نہ سمجھ سکے ہوتے
(جاری ہے)