پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ ہیبر جرمن قوم پرست تھے۔ انہوں نے تحقیق کا رخ عسکری مقاصد کی طرف موڑ دیا۔ اس میں سے ایک پراجیکٹ ایسا ایندھن بنانا ت...
پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ ہیبر جرمن قوم پرست تھے۔ انہوں نے تحقیق کا رخ عسکری مقاصد کی طرف موڑ دیا۔ اس میں سے ایک پراجیکٹ ایسا ایندھن بنانا تھا جو کہ روس کی سردی میں نہ جمے۔ ایک اور پراجیکٹ امونیا سے دھماکہ خیز مواد بنانا تھا جبکہ تیسرا پراجیکٹ گیس کو ہتھیار میں بدلنا تھا۔
اس کی کوشش بہت پرانی ہے لیکن زیادہ موثر نہیں رہی۔ آنسو گیس سے زیادہ خطرناک ہتھیار نہیں تھا۔ لیکن ہیبر کا مقصد مہلک کیمیائی ہتھیار بنانے کا تھا۔
ہیبر نے کلورین کا انتخاب کیا۔ جب کلورین سانس میں داخل ہوتی ہے تو اس کے ایٹم منہ، گلے اور پھیپھڑوں میں داخل ہو کر پانی کے ساتھ ری ایکشن کرتے ہیں اور ہائیڈروکلورک ایسڈ (HCl) اور ہائپوکلورک ایسڈ (HClO) بنا دیتے ہیں۔ یہ تیزاب پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے اور ایلویولی (وہ ننھے تھیلے جو آکسیجن جذب کرتے ہیں) کی لائننگ کو گلا دیتا ہے اور خون لانے والی کیپلری پھاڑ دیتا ہے۔ یہاں سے سیال ایلیولی میں داخل ہونے لگتا ہے اور آکسیجن پھیپھڑوں میں جذب ہونا کم ہونے لگتی ہے۔ اور سانس لینا ہر سیکنڈ میں دشوار ہوتا جاتا ہے۔ اس کا شکار ہونے والے خشک زمین پر “ڈوب” جاتے ہیں۔
کلورین ہوا سے بھاری سستی گیس ہے اور یہ نیچے کو بیٹھتی ہے۔ اس کا حملہ خندق کے فوجیوں پر سب سے زیادہ کارگر ہو سکتا ہے۔ 22 اپریل 1915 کو ہیبر نے پہلا حملہ کیا۔ 5730 کنستر جن میں 168 ٹن کلورین تھی۔ اس روز ہوا موافق سمت میں چل رہی تھی اور ان کنستروں کے والو کھول دیے گئے۔ سبز طوفان فرانسیسی فوج کی طرف بڑھا۔ ایسی سبز دھند پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ گھوڑے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بھاگے۔ فوجی بھاگتے ہوئے اپنے ہتھیار اور کپڑے تک چھوڑ گئے۔ دوسرا حملہ چند روز بعد کیا گیا۔ ہیبر کو ترقی دے دی گئی اور انہیں روس کی مشرقی سرحد پر ایسا حملہ کرنے کی تیاری کا کام سونپا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس سے روس جانے کے راستے میں چند روز کے لئے اپنے گھر رکے۔ ان کا جھگڑا اپنی بیوی کلارا کے ساتھ ہو گیا۔ وہ اپنے شوہر کو گیس کے ہتھیاروں کے اس کام سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ جبکہ ہیبر اس کامیابی کا جشن منانے کے لئے پارٹی منعقد کرنا چاہتے تھے۔
پارٹی کے بعد جب مہمان گئی تو کلارا نے چند خطوط لکھے اور پھر اپنے شوہر کے پستول کو اپنے سینے پر رکھ کر گولی چلا کر اپنی جان لے لی۔ ہیبر کو اس کا بہت صدمہ تھا لیکن حب الوطنی کا جذبہ ذاتی جذبے پر غالب آیا اور وہ اپنے مشن کو چل دیے۔
فرانس اور برطانیہ نے گیس کے اپنے ہتھیار بنا لئے اور اس کے جواب میں ہیبر کی ٹیم نے زیادہ مہلک ایجنٹ بنائے۔ ان کی ٹیم ڈیڑھ ہزار سائنسدانوں پر مشتمل تھی۔ اس نے مسٹرڈ گیس اور فاسجین جیسے ہتھیاروں کی ایجاد کی۔
ان گیسوں سے بچنے کے لئے گیس ماسک ایجاد ہوئے۔ لیکن جنگ میں گیس خوفناک ہتھیار رہا جو کہ مارنے کا ایک نیا اور برا طریقہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی سائنسی برتری کے باوجود 1918 میں جنگ ہار چکا تھا۔ اور اس کے ہارنے کی ایک وجہ خوراک اور کھاد کی کمی تھی۔ کھاد کے لئے بنائی جانے والی امونیا دھماکہ خیز مواد بنانے کے لئے استعمال ہوتی رہی تھی۔ جنگ بند ہوئی۔ دشمنی باقی رہی۔
سائنسدانوں کی کمیونیٹی کو اپنے بدلے چکانا تھا۔ ہیبر کو گیس پر تحقیق کی وجہ سے جرمنی کے حریف ممالک کے سائنسدانوں نے جنگی مجرم قرار دیا۔ ہیبر کی نظر میں یہ بے تکی حرکت تھی اور ان کا موقف بے وزن نہیں تھا۔ گیس کے حملوں میں 91000 اموات ہوئی تھیں جو کہ کل اموات کا ایک فیصد تھیں۔ ہیبر کا کہنا تھا کہ اگر گولا بارود بنانے والوں کی مذمت نہیں کی جا رہی تھی گیس کی ہی کیوں؟ ہیبر فرار ہو کر سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ بھاری رقم کے عوض شہریت حاصل کر لی اور بھیس بدل لیا۔ لیکن جنگی مجرم کا طعنہ ساری زندگی ان کا پیچھا کرتا رہا۔
آج بھی مورخین اس پر تقسیم ہیں کہ ہیبر کو کس طرح یاد کیا جائے۔ ان کی امونیا بنانے کی ترکیب نے ان کی زندگی میں ہی کئی ملین لوگوں کو فاقہ زدگی سے بچایا اور آج اربوں لوگوں کو غذا فراہم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اس وجہ سے انہیں ایک بڑا سائنسی ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ ان کی ایجاد کی اہمیت ویکسین سے کم نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ، انہوں نے تاریخ کا ایک خوفناک ہتھیار بھی ایجاد کیا۔ اور بخوشی اس کا استعمال کیا۔
ہیبر کو 1919 میں نوبل انعام دیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کی وجہ سے انہیں میڈل کی تقریب میں جانے کی اجازت نہ ملی۔ چھ ماہ بعد انہیں یہ دیا گیا۔
ہیبر کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے وطن کی خاطر یہ کیا تھا اور ان کے لئے یہ جواز کافی تھا۔ جنگ کے بعد بھی وہ جرمنی کی خاطر کام میں لگے رہے۔ جرمنی پر جنگ کے ہرجانے کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ فرانس نے پچاس ہزار ٹن سونے کا مطالبہ کیا تھا (جو دنیا میں اس وقت سونے کی مقدار کا دو تہائی تھا)۔ اس کے لئے انہوں نے زیرِ سمندر سے سونا نکالنے کی کوشش کی۔ بحری جہازوں میں خفیہ لیبارٹریز میں اس کی کوشش کی۔ یہ احمقانہ خیال لگتا تھا لیکن پھر ہوا سے کھاد بنانا بھی ایسا ہی خیال تھا۔
ساتھ ہی ساتھ وہ کیمیائی ہتھیاروں پر بھی کام کرتے رہے۔ ان کی تیاری میں سوویت یونین اور سپین کو مشاورت کی۔ اس کام کو چھپانے کے لئے اس کا مقصد کیمیائی ہتھیار کو کیڑے مار ادویات میں بدلنے کی تحقیق بتایا۔
پہلے کامیاب گیس کے حملے کی اخبار کی خبر کا تراشہ جس پر قیصرِ جرمنی نے دستخط کئے تھے، انہوں نے فریم کر کے اپنے کمرے کی دیوار پر لگایا ہوا تھا۔
ان کے لئے یہ کام ذاتی طور پر باعثِ فخر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد فرانس نے BASF کے امونیا پلانٹ کے معائنے کے حق کا مطالبہ کیا۔ اس لئے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس امونیا سے دھماکہ خیز مواد نہیں بنایا جائے گا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ بوش کی ٹیکنالوجی چوری کرنا چاہتے تھے۔
جب بھی معائنے کرنے والے آتے، بوش مشینیں بند کروا دیتے اور “اتفاق” سے اسی دوران بدقسمتی رہتی۔ والو خراب ہو جاتے، گیج ٹوٹ جاتے۔ سیڑھیاں گم ہو جاتیں۔ بوش نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر دورہ ناکام رہے۔
معائنہ کرنے ٹیم نے غصے میں بوش کو امن مذاکرات کے درمیان میں طلب کیا۔ بوش اور ان کے ساتھیوں کو ہوٹل میں قید کر دیا گیا۔ خاردار تار لگا دی گئی۔ کئی روز تک “مذاکرات” جاری رہے۔ بوش کو معلوم ہو چکا تھا کہ ٹیکنالوجی دینا ہی پڑے گی۔ انہوں نے اس پر اتفاق کر لیا کہ وہ فرانس میں ایک پلانٹ لگانے میں مدد کریں گے۔ اور جواب میں فرانسیسی ان کی کمپنی کو تنہا چھوڑ دیں۔
ایسا نہیں ہوا۔ ہرجانے کی رقم نے جرمنی کی کمر توڑ دی۔ ایک روٹی کی قیمت ایک ارب مارک تک جا پہنچی۔ جرمنی کی حکومت نے رقم کی ادائیگی روک دی اور مزید وقت مانگا۔ فرانس نے رقم کے بدلے BASF پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بوش نے اپنے مزدوروں کو مشینیں بند کرنے کا کہا۔ فرانس کی حکومت نے ان پر فردِ جرم لگا دی اور غیرحاضری میں آتھ سال قید سنا دی۔ انہیں جنگی مجرم قرار دیا گیا۔
بوش کو 1931 میں کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا۔ بوس اس وقت تک امونیا میں تحقیق کو چھوڑ چکے تھے۔ ان کی توجہ اب تیل اور گیس کی طرف تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا میں تیل کی سپلائی ختم ہو جائے گی۔ تیل کے کنویں خشک ہو رہے تھے۔ بوش کا خیال تھا کہ کوئلے کو مائع میں بدل کر اس کمی کو پورا کیا جا سکے گا۔ اس کے لئے انہیں حکومت کی سرمایہ کاری درکار تھی۔ جرمنی کے چانسلر اسے ایسا موقع سمجھتے تھے جس کی کامیابی سے ان کی فوج کو ایندھن کی رسد جاری رہے گی۔ بوش کو کانٹریکٹ مل گیا۔ دنیا کو جنگ مل گئی۔
دوسری جنگِ عظیم کے آخر تک، بوش کی فیکٹریاں جرمن فوج کے ایندھن کا ایک چوتھائی فراہم کر رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف، ہیبر تمام عمر جرمن قوم پرست محب وطن رہے تھے لیکن ان کا پس منظر یہودی تھا۔ جس جرمنی کے لئے انہوں نے تمام عمر کام کیا تھا، اس نے انہیں باہر نکال دیا۔ وہ سویٹزرلینڈ چلے گئے۔ امونیا پر کام سے انہوں نے جتنی دولت بنائی تھی، وہ جرمن سرکار نے ضبط کر لی۔ ان کی شہرت کے سبب انہیں کوئی ملازمت دینے کو تیار نہیں تھا۔ شکستہ حال ہیبر جنوری 1934 میں چل بسے۔
بوش کی وفات 1940 میں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوش اور ہیبر کا کام باقی رہا۔ انہوں نے ہوا سے خوراک بنانے کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔ اور بلامبالغہ، یہ دنیا کا اہم ترین کیمیکل ری ایکشن ہے۔
(جاری ہے)