ہیبر نے نائیٹروجن کا بانڈ توڑ لینے کا کام کر لیا تھا۔ مسئلہ اس کو بڑے پیمانے پر کرنے کا تھا۔ اور یہ بوش کے سپرد تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلا کام بوش...
ہیبر نے نائیٹروجن کا بانڈ توڑ لینے کا کام کر لیا تھا۔ مسئلہ اس کو بڑے پیمانے پر کرنے کا تھا۔ اور یہ بوش کے سپرد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کام بوش کا یہ تھا کہ وہ نائیٹروجن کو خالص کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے گینز ریفریجریشن کمپنی سے رجوع کیا جنہوں نے اس قدر طاقتور ریفریجریٹر بنا لیا تھا جو ہوا کو مائع بنا سکتا تھا۔ بوش کو اس سے الٹ پراسس میں دلچسپی تھی۔ مائع ہوا میں کئی اجزا ہیں۔ جب اس کو گرم کیا جائے تو ہر گیس الگ درجہ حرارت پر ابلتی ہے۔ نائیٹروجن کے لئے یہ منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس درجہ حرارت پر بننے والے بخارات کو الگ کر لیں تو یہ خالص نائیٹروجن ہے۔
دوسرا مسئلہ کیٹالسٹ کا تھا۔ ہیبر نے اوسمیم استعمال کیا تھا۔ لیکن یہ بہت مہنگا تھا۔ سونے سے بھی کئی گنا زیادہ مہنگے اور نایاب اس کیٹالسٹ کی وجہ سے یہ کام بڑے پیمانے پر کرنا مشکل تھا۔ بوش کو سستا متبادل درکار تھا۔ ان کی ٹیم نے بیس ہزار تجربات کے بعد بالآخر اس میں ایلومینیم آکسائیڈ اور کیلشیم کو لوہے کے ساتھ ملا کر بنے کیٹالسٹ کا انتخاب کر لیا۔
خالص نائیٹروجن اور سستے کیٹالسٹ کے بعد ابھی بڑی رکاوٹ رہتی تھی۔ اس ری ایکشن میں جتنا پریشر درکار تھا، اس کے لئے مضبوط آلات درکار تھے جو کہ مہینوں تک قابل اعتبار طریقے سے کام کر سکیں۔ سٹیم انجن سے بیس گنا زیادہ پریشر اور درجہ حرارت اتنا کہ لوہے کو دہکا دے۔ آلات نے اس پر کام کرنا تھا۔ یہ کیسے بنایا جائے؟
اس کے لئے اسلحہ ساز ادارے کروپ کا انتخاب کیا گیا۔ ان کی شہرت بڑی توپیں اور گولے بنانے میں تھی۔ کروپ کے انجینرز نے اس چیلنج کے لئے آٹھ فٹ اونچی اور ایک انچ موٹی فولادی بالٹیاں بنائیں۔ ان کو کنکریٹ میں ڈالا گیا۔ پہلا تجربہ ناکام ہونے کے بعد اس کے اندر کیمیکل کوٹنگ کی گئی جو گرم گیسوں سے محفوظ کرے۔ نئے والو، پمپ اور سیل ایجاد ہوئیں جو کہ زیادہ پریشر برداشت کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ٹیکنالوجی کے علاوہ بوش کا نیا طریقہ بیک وقت کئی کام کرنے کا تھا جو اسمبلی لائن کی طرح ملکر نتیجہ دیں۔ چند سال میں ہی BASF نے بہت بڑی فیکٹری اوپاؤ کے شہر کے قریب بنا لی۔ اس میں میلوں لمبے پائپ اور وائرنگ تھے۔ بنگلوں کے سائز کے آلات جو ہوا کو مائع بناتے تھے۔ اس فیکٹرے کی اپنی ریلوے لائن تھی جو خام مال لاتی تھی۔ اسی سے دس ہزار مزدور لائے جاتے تھے۔ دھڑا دھڑ امونیا بننے لگی۔
اپنی کامیابی کے بعد بوش رکے نہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے بھی بڑی فیکٹری لگائی جا سکتی ہے۔ یہ لیونا شہر کے قریب 1920 میں بنی۔ اس کا پلانٹ دو میل لمبا اور ایک میل چوڑا تھا۔ ایک رپورٹر نے اسے “شہر جتنی بڑی مشین” کہا۔
اور یوں جدید کھاد کی صنعت کا آغاز ہوا اور یہ کبھی سست نہیں پڑی۔ آج، ایک صدی بعد، ہیبر بوش کا یہ پراسس دنیا کی توانائی کی سپلائی کا ایک فیصد خرچ کرتا ہے۔ ہر سال 18 کروڑ ٹن کھاد بنائی جاتی ہے۔ اور دنیا کی خوراک کا نصف اس کی وجہ سے اگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی کہ اگر یہ ری ایکشن نہ ہو تو دنیا کی نصف آبادی غائب ہو جائے گی۔ آپ کے ڈی این اے اور پروٹین میں آنے والے نائیٹروجن کے ایٹموں کا بڑا حصہ اس ری ایکشن کے مرہون منت ہے۔ ہیبر کی ذہانت اور بوش کے امیر ہونے کے شوق نے اسے ممکن کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ہوتا کہ ان دونوں نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی کہانی کا اچھا انجام ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
(جاری ہے)