کیمرون کے مغربی علاقے کے آتش فشانی علاقے میں آبادی کم رہی ہے۔ لیکن مٹی اناج اگانے کے لئے زرخیز ہے اور ۱۹۸۰ کی دہائی میں یہاں کسانوں کے قبا...
کیمرون کے مغربی علاقے کے آتش فشانی علاقے میں آبادی کم رہی ہے۔ لیکن مٹی اناج اگانے کے لئے زرخیز ہے اور ۱۹۸۰ کی دہائی میں یہاں کسانوں کے قبائل بس چکے تھے۔ ان کے درمیان گاہے بگاہے لڑائیاں اور فائرنگ ہو جاتی تھیں۔ اگست 1986 کو آنے والی آوازیں بھی ایسی ہی لگ رہی تھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہلکی سی گڑگڑاہٹ اور عجیب سے غراہٹ بھی تھی۔ انہیں نظرانداز کر کے لوگ بستروں پر چلے گئے لیکن غروب آفتاب کے بعد نایوس جھیل کی تہہ سے کسی بلا کی آمد ہوئی۔
نو بجے کے قریب جھیل نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ڈکار لینا شروع کر دیے۔ اس کے بڑے بلبلے جھیل سے برآمد ہونے لگے۔ جھیل کی تہہ میں لوہے کی وجہ سے ان کا رنگ سرخ تھا اور یہ پھٹنے لگے۔ اس رات پچاس کروڑ پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ جھیل سے خارج ہوئی۔ گیس اور پانی کا فوارہ آسمان کی طرف لپکا اور ڈھائی سو فٹ اونچا چلا گیا۔ بیس سیکنڈ تک یہ چنگھاڑتا رہا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا سے پچاس فیصد بھاری ہے تو یہ پھیلنے کے بجائے زمین کی طرف آ گیا۔ اس کا ڈیڑھ سو فٹ اونچا سفید بادل بن گیا جو کہ جھیل کے گرد ڈھلوان پر لڑھکنے لگا اور دادی کی طرف جانے لگا۔ لڑھکتے ہوئے اس کی رفتار بڑھتی گئی۔ وادیوں میں سرد ہوا کے ساتھ ملنے کے ساتھ بخارات جمنے لگے اور گیس کا یہ حجم نظر آنا بند ہو گیا۔ اس کے لئے رات کو شکار کا وقت تھا۔
چالیس میل فی گھنٹہ سے سفر کرتے ہوئے اس نے چند ہی منٹوں میں کئی دیہاتوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ چا، سبم، فانگ، ماشی ۔۔۔ ان دیہاتوں میں جھونپڑیوں میں خاندانوں کو اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ موت سرعت سے آئی۔ پھیپھڑوں میں آکسیجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بھر جانے سے دم گھٹ گیا۔ تین لوگ یہاں شکار ہوئے، چار وہاں، چھ سڑک کنارے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح تک جھیل نایوس کا پانی تین فٹ گر چکا تھا۔ اس کی نیلی سطح شیر کی کھال جیسی ہوئی گئی تھی۔ نارنجی رنگ جس میں سیاہ دھاریاں تھیں۔ دور کے دیہاتوں میں چند لوگ بچ گئے تھے لیکن سردرد، پیچش اور متلی کا شکار تھے۔ کئی لوگ کئی گھنٹوں تک ہلنے سے بھی قاصر رہے۔ کل ملا کر اس روز 1746 اموات ہوئیں۔ جن کی تعداد اگلے چند دنوں میں بڑھ گئی۔ چھ ہزار مویشی مارے گئے۔ پرندے، چوہے اور کیڑے بھی نہیں بچ پائے۔ اگلے کئی روز سناٹا رہا۔ مکھیاں بھی نہیں بچی تھیں جو کہ مردہ لاشوں پر بھنبھناتی پھریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز کیا ہوا تھا؟ مقامی لوگوں میں سے کئی کا کہنا تھا کہ جھیل کا آسیب تھا جو زندہ ہو گیا تھا۔ کچھ اور لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ دشمن کی طرف سے کیمیائی ہتھیار کا حملہ تھا۔ یا پھر یہاں پر نیوٹرون بم کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔
لیکن سائنسدانوں کو ان سے اتفاق نہیں تھا۔ دنیا سے ماہرین ارضیات کیمرون آنے لگے۔ انہوں نے جلد ہی یہ پتا لگا لیا کہ نایوس جھیل ایک متحرک آتش فشاں کے اوپر ہے۔ اور صرف چار سو سال قبل یہ آتش فشانی عمل کے نتیجے میں ہی وجود میں آئی تھی۔ اور چونکہ آتش فشاں اکثر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں تو یہ گڑھا اس کا سورس تھا۔
اس کے علاوہ سائنسدان کم چیزوں پر متفق ہوئے کہ اس روز کیا ہوا۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ کسی بیرونی عمل کا نتیجہ تھا جیسا کہ کوئی لینڈسلائیڈ ہوئی ہو، کچھ کا خیال تھا کہ آتش فشاں سے لاوا اگلے جانے کی وجہ سے ایسا ہوا، جب کہ کچھ کا خیال تھا کہ صدیوں میں جمع ہوتے ہوتے کاربن ڈائی آکسائیڈ تہہ میں اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ اس بدقسمت دن میں یہ پانی کی سطح چیر کر اوپر آ گئی جیسا کہ سیون اپ کی بوتل کھولنے پر یہ اوپر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیمرون کے لوگوں نے سست رفتار اکٹھی ہونے سے اتفاق کیا۔ حکومتی اہلکاروں نے اس سے بچنے کے طریقوں پر بحث کی۔ جس میں جھیل میں بم پھینکنا بھی تھا۔ آخر میں جو طریقہ اپنایا گیا، وہ یہ کہ اس کی تہہ میں بڑا پائپ ڈالا جائے جس سے تہہ کی ہوا نکالی جائے۔ یہاں پر سطح پر کشتیوں کو تیرایا جاتا ہے جہاں سے 666 فٹ لمبا پائپ بل کھاتا ہوا جھیل کی تہہ تک پہنچتا ہے اور ہوا کا اخراج کیا جاتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کتنا مفید ہے۔
اگست کی رات میں ہونے والی اموات ہمیں ایک اہم بات کی یاد دہائی کرواتی ہیں۔ زمین کبھی ایسی ہی ہوا کرتی تھی۔ اس میں زہریلی گیسوں کے عظیم الشان بلبلے پھٹتے رہتے تھے۔ خوش قسمتی سے ہم اب اس دور میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو زمین نے اس زہریلی فضا سے آج کی مہربان فضا تک کا سفر کیسے کیا؟ اس جواب کے کئی حصے ہیں۔ اور اس میں سے ایک بہت اہم حصہ زمین پر نائیٹروجن کی تاریخ ہے۔
(جاری ہے)