ان چھوٹے شہابیوں سے لگنے والی ٹکروں کے دور میں ایک بڑی اور اہم ٹکر ہوئی جس سے ہمارا چاند وجود میں آیا۔ نظامِ شمسی کے دوسرے اجسام کے پاس اتن...
ان چھوٹے شہابیوں سے لگنے والی ٹکروں کے دور میں ایک بڑی اور اہم ٹکر ہوئی جس سے ہمارا چاند وجود میں آیا۔ نظامِ شمسی کے دوسرے اجسام کے پاس اتنے بڑے چاند نہیں۔ ہمارا چاند زمین سے ایک چوتھائی سائز کا ہے۔ ایسے کیوں؟ اس کیلئے بیسیویں صدی کے سائنس دان کئے تھیوریاں پیش کرتے رہے۔ کسی کا خیال تھا کہ یہ ایک الگ سیارے کے طور پر الگ جسم بنا تھا۔ یہ دبے پاوٗں زمین کے پاس سے گزر رہا تھا کہ گریویٹی کی گرفت میں آ گیا۔ آسٹرونومر جارج ڈارون (جو مشہور بائیولوجسٹ چارلس ڈارون کے فرزند تھے) کا خیال تھا کہ یہ ہماری زمین سے الگ ہوا ٹکڑا ہے۔ یہ کسی وجہ سے ایسے الگ ہوا جیسا کہ ایک خلیہ دو میں تقسیم ہوتا ہے۔
اپالو 11 چاند پر 1969 میں لینڈ ہوا۔ اس سے زمین پر لائے گئے پتھروں نے چاند کی پیدائش کی کہانی اگل دی۔ یہ کہانی پہلے سے پیش کردہ خیالات کا مجموعہ تھا۔ چاند کے پتھروں میں پھنسی گیسوں کی مقدار زمین سے کم تھی۔ اس سے پتہ لگتا تھا کہ چاند کی چٹانوں سے گیس ابل کر باہر نکلی ہے۔ چاند جیسے بڑے جسم کو ابالنے کے لئے بہت ہی زیادہ توانائی درکار ہے اور اس کا ایک ہی سورس ہو سکتا ہے۔ جب ماہرینِ فلکیات نے اس سب ڈیٹا کو ماڈلز میں ڈال کر نتیجہ نکالا تو ہمیں تھیا کا پتہ لگا۔
تھیا مریخ جتنا بڑا سیارہ تھا جو غالباً زمین کے مدار میں وجود میں آیا تھا۔ گریویٹی نے اپنا کام دکھایا۔ اس کی وجہ سے دونوں اجسام لمبا عرصہ قریب نہیں رہ سکتے تھے۔ اپنے بننے کے پانچ کروڑ سال کے بعد ان دونوں کی ٹکر ہو گئی۔ اس سے زمین کو ہونے والی ٹکر کو “عظیم تصادم” کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ اس قسم کی ٹکر ہے جس نے ڈائنوساروں کا دور ختم کیا تو نہیں۔ ٹھہریں، اور پھر غور کریں۔ ڈائنوسار ختم کرنے والے شہابئے کی ٹکر نے آگ کے اونچے ستون بنا دئے تھے اور کئی سال تک زمین کو خاک سے ڈھک کر روشنی مدہم کر دی تھی۔ لیکن اس سے زمین کے سٹرکچر پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ عظیم تصادم واقعی عظیم تھا۔ اس نے زمین کے سمندر ابال دئے۔ برِاعظموں جتنی بڑی چٹانوں کو دھواں کر دیا۔ زمین کو ہوا سے خالی کر دیا۔ تھیا، وہ جسم جو زمین سے ٹکرایا تھا، خود دھواں ہو گیا اور زمین کی شکل بدل ڈالی۔ دھواں ہونے والا مادے نے زمین کے گرد ہالے بنا دئے۔ یہ مادہ پھر زمین سے کچھ دور اکٹھے ہونا شروع ہو گیا اور بننے والا جسم چاند کہلایا۔
اس تصادم کے طویل مدتی اثرات میں سے ایک چاند کا جنم ہے اور بہار اور خزاں کا بھی۔ کیونکہ اس نے زمین کا ایکسز اس طرح ٹیڑھا کر دیا جس سے موسم بنتے ہیں۔ لیکن قلیل مدتی اثرات اچھے نہ تھے۔ اگر زمین نامہربان تھی تو یہ مزید نامہربان ہو گئی تھی۔ اب فضا زیادہ گرم تھی ۔ اس میں جلا دینے والی سلیکون (یا دھواں ہوئی ریت) شامل تھی۔ یہ ایک ہزار سال تک رہی۔ اس دھواں ہوئی ریت میں لوہے کی بارش ہوا کرتی تھی اور ہوا نمکین ہو چکی تھی کیونکہ اب اس میں سوڈیم کلورائیڈ بھی تھا۔
اس وقت کا چاند سورج سے بارہ گنا زیادہ سائز کا نظر آتا کیونکہ یہ زمین سے صرف پندرہ ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ اپنے پگھلی حالت میں یہ ایک سرخ آنکھ کی طرح لگتا ہو گا۔ اگر اس وقت کوئی شعر کہنے والا ہوتا تو اس آسمان کے سرخ روشن بڑے گولے کا ذکر کرتا۔
شہابیے کم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ زمین کی فضا کی اگلی قسط کو ٹھہرنے کیلئے وقت مل گیا تھا کیونکہ شہابیے اسے تنگ نہیں کرتے تھے۔ اتنا ہی اہم یہ تھا کہ اب باقاعدہ آتش فشاں ابھر آئے جو شروع کی زمین پر نہ تھے۔ کیونکہ اس سے پہلے لاوا سطح کے شگافوں سے پگھلی حالت میں نکلتا رہتا تھا۔ جب خلائی پتھر زمین پر آنا بند ہوئے تو ٹھنڈا ہوتی سطح نے سخت باہری خول کی صورت میں ڈھلنا شروع ہوئی۔ زمین کے شگاف بند ہونا شروع ہوئے۔ پگھلی مائع حالت کا لاوا زمین کے نیچے ہی تالابوں میں مقید رہ گیا۔
اس قید ہوئے لاوے میں گیسیں ابھی موجود تھیں۔ انہوں نے زمین کی تاریخ میں ابھی کردار ادا کرنا تھا۔ اگرچہ اس میں سے گیسیں کم ہو چکی تھیں لیکن اربوں سال کے سائیکل سے بننے والے چکر نے ابھی بہت جگہ پر لاوا اگلنا تھا، زمین کو ہلانا تھا۔
زمین، فضا، آسمان پر چمکتا چاند، موسم ۔۔۔ زمین ہمیشہ سے آج کی طرح کی نہیں تھے۔ اس کے نارنجی، غصیلے آگ بھرے بچپن سے آج کی مہربان بالغ زمین تک سفر مختصر نہیں تھا۔
(جاری ہے)