رومی بادشاہ کی طرف سے طلبی عام طور پر اچھی خبر نہیں ہوتی تھی لیکن اوٹو گیریکے جو کہ میگدے برگ کے گورنر تھے، پراعتماد تھے۔ وہ تاریخ کا ایک اہ...
رومی بادشاہ کی طرف سے طلبی عام طور پر اچھی خبر نہیں ہوتی تھی لیکن اوٹو گیریکے جو کہ میگدے برگ کے گورنر تھے، پراعتماد تھے۔ وہ تاریخ کا ایک اہم ترین سائنسی تجربہ کرنے جا رہے تھے۔
گیریکے کو خلا کا جنون تھا۔ خالی جگہ جس میں کچھ بھی نہ ہو۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ قدرت کو خلا سے نفرت ہے لیکن گیریکے کا شک تھا کہ قدرت اس سے زیادہ کشادہ دل ہے اور انہوں نے خلا بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ ان کی پہلی کوشش ایک پانی کے پیپے سے فائر بریگیڈ کا پمپ استعمال کر کے پانی نکالنے کی تھی۔ یہ سیل بند پیپا تھا جس میں ہوا کا گزر نہیں ہو سکتا تھا لیکن چند منٹ میں اس کے جوڑ لیک کرنا شروع ہو گئے اور ہوا اس میں گھس گئی۔ اس سے اگلا تجربہ انہوں نے ایک تانبے کے سفئیر پر اسی طریقے سے کیا۔ یہ پہلے سے زیادہ دیر تک رہا لیکن اس عمل کے درمیان میں یہ سفئیر اونچی آواز سے پھٹ گیا۔
اس زبردست آواز سے پھٹنے نے گیریکے کو حیران کر دیا اور ان کے ذہن میں نئے خیالات آنا شروع ہو گیا۔ صرف ہوا کا پریشر ۔ یعنی سفئیر کے اندر اور باہر کے پریشر کا فرق اتنا زیادہ تھا کہ اس نے اس سفئیر کو پچکا دیا تھا۔ کیا ہوا اتنی زورآور ہو سکتی ہے؟ گیس تو نرم سی ہوتی ہے۔ لیکن پچکنے کی کوئی اور وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا جب کسی کو یہ احساس ہوا تھا کہ گیس اتنی طاقتور ہو سکتی ہے۔ یہ بھاپ کی طاقت کا قطل کھولنے اور پھر صنعتی انقلاب کی طرف ایک پہلا قدم تھا۔
لیکن ابھی گیریکے کو اپنے ہم عصروں کو قائل کرنا تھا اور ان کے پاس سائنسی مہارت تھی۔ انہوں نے اگلے دس برس میں اس کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک شاندار تجربہ ڈیزائن کیا تھا۔ اتنا شاندار کہ جب اس کی بھنک شاہ فرڈیننڈ شوئم کو پڑی تو اس کو دکھانے کے لئے اپنے دربار میں طلب کیا۔
دو سو میل سے زائد سفر میں گیریکے کے پاس ایک تانبے کا سفئیر دو حصوں میں تقسیم موجود تھا۔ یہ دو فٹ کے سائز کا تھا اور اتنی موٹی دیواریں تھیں کہ ہوا کا دباوٗ برداشت کر سکتی تھیں۔ ان میں رسی ڈالنے کے لئے ایک ہُک تھا اور سب سے اہم یہ کہ اس میں سے ایک میں سوراخ تھا اور اس میں ایک ہوا کا والو لگایا گیا تھا جس سے ہوا صرف ایک سمت میں جا سکتی تھی۔ یہ ان کے بیچ میں سے ہوا نکالنے کے لئے تھا۔
دربار میں تیس گھوڑے اور ایک بڑا مجمع ان کا انتظار کر رہا تھا۔ گیریکے نے اعلان کیا کہ وہ ان ٹکڑوں کو اس طرح ملائیں گے کہ بہترین شاہی گھوڑے بھی ان دو ٹکڑوں کو الگ نہیں کر سکیں گے۔ مجمع کی طرف سے قہقہہ بلند ہوا۔ جیر نے اس کو ایک تین ٹانگوں والے سٹینڈ پر رکھا۔ مقامی لوہاروں کی مدد سے اس ٹیوب کے ذریعے ہوا نکالا شروع کی۔ یہ طریقہ پسٹن کے ذریعے تھا۔ پسٹن کی ہر حرکت پر نصف ہوا نکل جاتی تھی۔ جس طرح ہوا نکلنا شروع ہوئی، یہ دونوں نصف آپس میں مضبوطی سے جڑنا شروع ہو گئے۔
اس سفئیر کے باہر سے ہوا کا دباوٗ ان کو ایک دوسرے کی طرف دھکیل رہا تھا لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اندر سے کوئی دباوٗ نہیں تھا۔ اس سائز کے سفئیر پر یہ دباوٗ 5600 پاوٗنڈ تھا۔ ہوا نکل جانے کے بعد جیرک نے پمپ الگ کیا۔ ان پر رسی باندھی اور اس رسی کو گھوڑوں کی ٹیم کے ساتھ باندھ دیا۔ گھوڑوں نے زور لگایا کہ یہ الگ ہو جائیں۔ ہنہنا رہے تھے، اپنے سُم زمین پر مار رہے تھے، ان کی گردن کی شریانیں نکل آئیں تھیں لیکن اس سفئیر کے دونوں حصوں کو الگ نہیں کر سکے۔ گھوڑوں نے ہوا کے زور کے ہاتھوں ہار مان لی۔
گیریکے نے سفئیر اٹھایا، والو کھولا۔ اس میں ہوا داخل ہوئی اور ایک ہی سیکنڈ کے بعد یہ دونوں خود ہی الگ ہو گئے۔ اس مظاہرے نے بادشاہ کو اس قدر متاثر کیا کہ اوٹو گیریکے اوٹو وون گیریکے بن گئے۔ یعنی اعلیٰ ترین شاہی خطاب کے حقدار۔
اگلے سالوں میں گیریکے نے کئی اور ڈرامائی تجربے کئے۔ خلا پر کئے گئے تجربوں میں انہوں نے دکھایا کہ خلا میں گھنٹی کی آواز نہیں آتی۔ خلا میں مکھن گرم لوہے کی سلاخوں کے قریب بھی نہیں پگھلتا یعنی خلا میں حرارت اور آواز سفر نہیں کرتے۔ انہوں نے سفئیر والا تجربہ کئی طریقے سے کئی جگہ بدل کر کیا۔ اور ہوا کس قدر طاقتور ہے۔ ہوا کا دباؤ 14.7 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے۔ ایک عام بالغ انسان میں ایک وقت میں بیس ٹن ہوا کے وزن کا دباؤ ہے لیکن محسوس اس لئے نہیں ہوتا کہ اتنا ہی اندر کی طرف سے بھی ہے۔
ہوا کے مضبوطی کے اس تصور نے نئی تجربوں کی راہ کھولی۔ وہ جو عملی تھے، یعنی سٹیم انجن سے صنعتی انقلاب۔ وہ جو ہمارا خواب تھے، یعنی گرم ہوا کے غبارے کے ذریعے پہلی بار انسان نے اڑنا سیکھا اور وہ جو قاتل تھے جیسے دھماکہ دار مواد۔ یہ سب ان گیسوں کی فزیکل طاقت کا نتیجہ تھے۔
(جاری ہے)
آج جرمنی میں میگدے برگ کی مشہور یونیورسٹی اس ڈرامائی تجربہ کرنے والے گیریکے کے نام پر ہے۔ جس سفئیر پر یہ تجربہ کیا گیا اور جس ویکیوم پمپ سے اس کی ہوا نکالی گئی، وہ اس وقت میونخ میوزیم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔