ابھی تک ہم ہوا کے بارے میں دو بڑے سوالات کو دیکھ چکے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا یہ فضائی غلاف آیا کہاں سے۔ دوسرا یہ کہ اس میں نائیٹروجن اور آکسی...
ابھی تک ہم ہوا کے بارے میں دو بڑے سوالات کو دیکھ چکے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا یہ فضائی غلاف آیا کہاں سے۔ دوسرا یہ کہ اس میں نائیٹروجن اور آکسیجن زیادہ کیوں ہیں۔ جب بھی ہم سانس لیتے ہیں تو ان کے علاوہ بھی 100 کے قریب دوسری گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔ اور یہ ہمیں ایک اور موقع دیتی ہیں۔ یہ ہمارے اور گیسوں کے تعلق کی ہے۔ ہم ان کو سینکڑوں جگہ پر اپنی زندگیاں بہتر کرنے کے لئے استعمال کر چکے ہیں۔ اس کی ابتدا طب سے ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھامس بیڈویس آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور ان کی شہرت برطانوی سائنس کے کھسکے ہوئے کرداروں کی تھی جو کوئی بھی تجربہ کرنے کو تیار رہتے تھے۔
اٹھارہویں صدی میں کئی گیسیں دریافت ہو چکی تھیں۔ اور کئی سائنسدان ان کی دوا کے طور پر خاصیتیں جانچ رہے تھے۔ اور ساتھ ہی کئی فراڈ کرنے والے لوگوں کو بھی موقع مل گیا تھا جو کہ ذیابیطس، السر، ٹائیفس، پیچس، بہرا پن اور نابینا ہونے کے علاج کے لئے بھی گیس کو بطور علاج بیچ رہے تھے۔
بیڈویس کا ایک کام نائیٹرس آکسائیڈ پر تھا۔ یہ سائنس اور کھسکے ہوئے ہونے کی لکیر کے درمیان کا کام تھا۔ اس کو laughing gas بھی کہا جاتا ہے اور یہ شعور کی کیفیت بدل دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر ہر بیماری کی وجہ ہوا میں تلاش کرتے تھے۔ (ملیریا کا مطلب یہ گندی ہوا ہے)۔ مریضوں کے لئے پرفضا مقامات پر سینیٹوریم بنائے جاتے تھے۔ پہاڑوں اور ساحلوں پر ایسی جگہیں عام تھیں۔ بیڈویس بھی اچھی اور گندی ہوا پر یقین رکھتے تھے۔ اور انہیں 1791 میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی ہوا خود تیار کی جائے۔
انہوں نے اس پر تجربات شروع کر دیے۔ مثلا، انہوں نے لکھا کہ اگر میں آکسیجن کو زیادہ سونگھنے لگوں تو نزلہ نہیں ہوتا اور وزن کم ہو جاتا ہے۔ جبکہ جلد خشک ہو جاتی ہے اور نکسیر پھوٹتی ہے۔ انہوں نے ان تجربات اور ان کے نتائج پر کتاب لکھی جس میں کئی دعوے مشکوک تھے۔
بیڈویس نے ایک ادارے کا خاکہ بنایا جس میں گیسوں پر تحقیق ہو، اور اس کے ہسپتال میں مریضوں پر گیسوں سے علاج ہو۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے جیمز واٹ بھی تھے۔ (بیڈویس نے واٹ کی بیٹی کی تپدق کا علاج کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے)۔
اس کے لئے انہوں نے برسٹل کے علاقے میں زمین کا انتخاب کیا۔ کلینک مارچ 1799 میں کھل گیا۔
اس کلینک میں کئی گیسوں اور کئی مریضوں کے تجربات کئے جاتے رہے۔ سبز رنگ کی لافنگ گیس مقبول رہی کیونکہ یہ کچھ دیر کے لئے تکلیف بھلا دیتی تھی۔ تاہم، کسی کی بیماری میں افاقہ نہ ہونے کے سبب یہ کامیاب نہ ہوا اور تین سال بعد بند ہو گیا۔
تاہم، یہ گیس کے ذریعے طب کی پہلی کوشش تھی اور اس میں تحقیق نے آئندہ کی دہائیوں میں ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا جس نے اس ادارے کی شہرت بحال کی۔ یہ کامیابی اینستھیزیا کی تھی
(جاری ہے)