انتوان لاووسیے نے جدید کیمسٹری کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ آکسیجن کے کردار سے لے کر میٹرک سسٹم تک، ماس کے کنزرویشن کے قانون سے کئی عناصر کی دریا...
انتوان لاووسیے نے جدید کیمسٹری کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ آکسیجن کے کردار سے لے کر میٹرک سسٹم تک، ماس کے کنزرویشن کے قانون سے کئی عناصر کی دریافت تک، تنفس اور پانی کی کیمسٹری تک ان کا سائنس کی تاریخ میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہ سائنس کو اپنے شوق کے لئے فارغ وقت میں اپنے خرچ پر کرتے تھے۔ ایسا یہ اس لئے کر سکتے تھے کہ ان کا شمار فرانس کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ امیر ترین افراد میں اس لئے تھے کہ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری ان پر تھی۔ اس وجہ سے ان کو اعداد اور پیمائش کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی جنون کا نتیجہ سائنس کی دریافتوں سے لے کر فرانس کو پیمائش کا مرکز بنانے کی صورت میں نکلا اور خود ان کی زندگی کے اختتام کی وجہ بھی بنا۔ ان کا امیر ہونا اور حکومت کا حصہ ہونا ان کا جرم ٹھہرا۔
لاووسیے پر ایک الزام یہ لگایا گیا کہ شہر کے جو دروازے بنائے گئے ہیں، اس سے پیرس کی ہوا رک گئی ہے۔ یہ سائنس کے لحاظ سے بے بنیاد تھا لیکن پراپگینڈا کے طور پر موثر رہا۔
لاووسیے کو 1793 میں ستائیس لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ انقلابیوں کی نظر میں یہ وہ جونکیں تھیں جو عوام کا خون رہی تھیں۔ لاووسیے کی جائیداد ضبط کی جا چکی تھی لیکن انہیں امید تھی کہ نکل کر فارمیسی کا کام کریں گے جو ان کا شوق ہے۔
ان پر مقدمہ آٹھ مئی 1794 کو صبح دس بچے چلایا گیا۔ تین جج سیاہ لباس اور سفید ٹائی میں ملبوس تھے۔ پہلی بار پڑھ کر سنایا گیا کہ ان پر الزامات کیا ہیں۔ اس میں تمباکو میں ملاوٹ، تیرہ کروڑ لیورس کی کرپشن اور عوامی مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ تمام ملزمان کو اسی روز سزائے موت سنا دی گئی جس کے لئے شام پانچ بچے کا وقت مقرر ہوا۔
اس روز پینتیس منٹ میں اٹھائیس لوگوں کے سر قلم کئے گئے۔ لاوویسے کے ذہن میں اس وقت ایک اور خیال آیا۔ ایک اور پیمائش، ایک اور تجربہ۔ انہوں نے سنا تھا کہ جب سر کاٹ دیا جائے تو زندگی فوری ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ دیر لگتی ہے۔ چہرے پر تاثرات آتے ہیں اور آنکھ جھپکی جاتی ہے۔ انہوں نے کسی کو کہا کہ جب میرا سر علیحدہ ہو جائے گا تو جب تک ممکن ہوا، میں آنکھیں چھپکاتا رہوں گا۔ یہ گننا کہ میں کتنی دیر تک اور کتنی بار ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہوں۔ یہ لاووسیے کی زندگی کا آخری تجربہ تھا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے گیارہ بار پلکیں چھپکائیں، کچھ کے مطابق پندرہ بار، کچھ کہتے ہیں کہ اسے نوٹ ہی نہیں کیا گیا کیونکہ ان کا سر ناظرین سے دور گرا تھا۔
شاید یہ اصل نہ ہو لیکن طاقتور کہانی ہے۔ تماشائیوں کے آگے سائنس کے ایسے تجربات کرنا کہ دیکھنے والے دانتوں تلے انگلی دبا لیں ۔۔۔ یہ لاووسیے کا شوق تھا۔ اپنے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہوتے وقت کو بھی تجربہ بنا لینا ان کے کردار کے مطابق تھا۔
لاووسیے بھی اس دنیا سے چلے گئے جیسے ان سے پہلے اربوں جا چکے، جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ اس سے ڈیڑھ سال بعد فرنچ حکومت نے ان کی بیوہ کو مختصر خط لکھ کر اس پر معافی مانگ لی تھی کہ ان کو دی جانے والی سزا غلط تھی۔ لاگرینج کے مطابق “اس سر کو کٹنے میں ایک لمحہ لگا، لیکن ویسا سر سو سال تک پیدا نہیں کیا جا سکے گا”۔ لاووسیے کا نام آج آئفل ٹاور پر لکھے 72 عظیم ناموں میں سے ہے۔
(جاری ہے)