اپنے آپ کو سانس لیتا محسوس کریں۔ پھیپھڑوں کا پچکنا اور بھرنا، اپنی ناک کے نیچے انگلی رکھ کر دیکھیں۔ جو ہوا اندر گئی تھی، باہر مختلف ہو کر نک...
اپنے آپ کو سانس لیتا محسوس کریں۔ پھیپھڑوں کا پچکنا اور بھرنا، اپنی ناک کے نیچے انگلی رکھ کر دیکھیں۔ جو ہوا اندر گئی تھی، باہر مختلف ہو کر نکلی ہے۔ گرمی لے کر اور تھوڑی سی نمی لے کر (اور شاید ہلکی سی بدبو لے کر)۔ یہ کیا جادو ہے؟ ہوا کے مالیکیول آپ کی انگلی سے زور سے ٹکرا رہے ہیں جن کو آپ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ کتنے ہیں اور کہاں جاتے ہیں؟
ان میں سے کئی زیادہ دور نہیں جائیں گے۔ آپ کے اگلے سانس کے ساتھ واپس آپ ہی کے جسم میں داخل ہو جائیں گے۔ کچھ ذرا اور دور تک پہنچیں گے اور آپ کے اگلے کسی سانس میں واپس آ جائیں گے۔ لیکن بہت سے اس فضا کی گمنامیوں میں جا کر اس دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی کبھی کچھ مہینوں بعد واپس آپ کی سانس کا حصہ بن جائے۔ اس کے پہلے اور دوسرے چکر کے درمیان آپ خود ایک مختلف انسان ہوں۔ اور اس دنیا میں آپ اکیلے تو نہیں۔ آپ کی سانس کے یہ مالیکول کسی اور کے سانس کا حصہ بھی رہے ہوں گے۔ آپ یہ ہوا صرف اپنے کمرے میں موجود دوسرے لوگوں سے ہی شئیر نہیں کر رہے بلکہ تمام دوسرے لوگوں سے۔ ان کو بھی جن کو آپ پسند کرتے ہیں اور ان کو بھی جن کو نہیں۔ جس طرح دور سے آنے والی ستاروں کی روشنی آپ کی آنکھ کو روشن کرتی ہے، ویسے ہی شاید ہوا کا اگلا جھونکا ٹمبکٹو کے کسی شخص کی سانس آپ کی ناک تک لے کر آ رہا ہے۔ یا پھر شاید ہوا کے یہ مالیکیول وہ ہوں جو پاکستان بننے کے ریڈیو کے اعلان کی وجہ سے مرتعش ہوئے ہوں یا پھر کبھی دیوارِ برلن کے گرنے کے وقت اس کے قریب تھے۔ اور اگر پروازِ تخیل بلند کریں تو پھر ہم رومی سلطنت کے دور کے ایک روز میں چلتے ہیں۔
رومی بدشاہ جولیس سیزر، جن کے نام پر جولائی کا مہینہ ہے، اُس روز سینٹ کے ہال میں داخل ہوئے۔ صدا لگی، سب کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے کہ سیزر اپنے تخت پر بیٹھے، ایک سینیٹر سمبر اپنی عرضداشت لے کر بڑھے کہ ان کے بھائی کی سزا معاف کر دی جائے۔ حسبِ توقع سیزر نے انکار کر دیا اور یہی پلان تھا۔ وہ بار بار درخواست کرتے رہے اور سیزر کا انکار جاری رہا۔ اس دوران ساٹھ دوسرے سینیٹر بھی سمبر کی حمایت میں سیزر کے گرد گھیرا ڈال چکے تھے۔ سیزر نے بحث ختم کرنے کی کوشش کی۔ سمبر نے سیزر کے شانے پر ہاتھ رکھا اور ان کا لباس کھینچ لیا۔ حیران سیزر کو کوئی اندازہ نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ایک دوسرے سینیٹڑ، کاسکا، نے ان کی گردن پر خنجر سے وار کیا۔ سیزر کی آنکھوں میں غصے سے زیادہ کنفیوژن تھی۔ ان سینیٹرز نے اپنے چمڑے کے قلمدان کھول لئے۔ ان کے ہاتھ میں ساٹھ قلم نہیں، ساٹھ خنجر تھے۔
شروع کی مزاحمت کے بعد سنگِ مرمر کا فرش سرخ ہونے لگا۔ تئیس وار، جن میں سے بائیس معمولی تھے لیکن دل پر کیا گیا ایک وار مہلک تھا۔ کچھ یادداشتوں کے مطابق نیچے گرنے سے پہلے انہوں نے اپنے لباس کو سنبھالا اور ان کی نظر اپنے پسندیدہ ترین شاگرد کے سرخ خنجر پر پڑی۔ اپنی قوت مجتمع کر کے انہوں نے کہا، “بروٹس، تم بھی؟” اور فرش پر گر کر ایک آخری آہ لیتے ہوئے جان دے دی۔
اس آخری آہ کے ساتھ کیا ہوا؟ آسان جواب یہ ہے کہ یہ گم ہو گئی۔ سیزر کو گزرے اتنا عرصہ گزر گیا کہ اس عمارت کے بھی معمولی سے آثار ہی بچے ہیں۔ نہ ان کے جلے جسم کی کوئی باقیات،۔ نہ کوئی اور باقی بچا، نہ وہ سینیٹ رہی اور نہ وہ رومی سلطنت۔ تو سانس جیسی عارضی چیز کہاں بچے گی۔ فضائی کرہ اس قدر وسیع ہے۔ سب کچھ ہی کھو گیا۔ لیکن اس کی ریاضی دیکھتے ہیں۔
ہر عام سانس کے ساتھ ہم آدھا لٹر ہوا خارج کرتے ہیں۔ سیزر کی آخری آہ میں شاید ایک لٹر ہوا ہو۔ اگر زمین کے گرد دس میل اونچائی والے فضائی کرے سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ اس کا 0.00000000000000000001 فیصد ہے۔ اتنا کم کہ اس کو راوٗںڈگ ایرر تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ ہم ہنس کر دروازہ بند کر دیں، کچھ اور آگے چلتے ہیں۔ گیس زمین پر تیزی سے پھیلتی ہے۔ سیزر کی آخری آہ کے مالیکیول اگلے دو ہفتے میں روم کے عرض بلد میں ہر جگہ پھیل چکے ہوں گے۔ منگولیا، شکاگو، بحیرہ کیسپین اور جنوبی افریقہ تک۔ دو مہینے میں تمام شمالی نصف کرے پر اور ایک سے دو سال میں تمام زمین پر۔ (آپ کے ہر سانس اور ہر ڈکار کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، دو ہفتے، دو ماہ اور ایک سے دو سال ان کے پھیلاؤ کا حساب ہے)۔
سانس ہوا ہے اور ہوا مالیکیول۔ ہمارے لئے تو یہ مٹ جاتا ہے لیکن مائیکروسکوپک سطح پر کچھ بھی ایسے ہی نہیں مٹتا۔ اس “نرم” ہوا کے آپس میں “سخت” بانڈ قدرت کے مضبوط ترین جوڑ ہیں۔ کمرے کے درجہ حرارت اور پریشر پر ایک لٹر ہوا میں اڑھائی کھرب کھرب مالیکیول ہوتے ہیں۔ ہم ہر سانس میں اپنے جسم میں جس قدر ٹریفک لے کر جاتے ہیں، وہ ایک انتہائی بڑا عدد ہے۔
اس بڑے عدد اور ایک چھوٹے سے امکان کو سامنے رکھ کر جب ہم ریاضی کرتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اوسطا ہر سانس میں ایک مالیکیول وہ ہے جو بروٹس کو دیکھ کر حیرت زدہ سیزر کی آہ سے نکلا تھا۔ اور دن کی بیس ہزار سانسوں میں ہزاروں مالیکیول اس ایک سانس کے ساتھ مشترک ہیں۔ اور اپنی زندگی کے برسوں میں شاید ان میں سے کچھ مالیکیول آپ کے جسم کا حصہ بھی بن جائیں۔
اگرچہ سیزر کے جسم کے ٹھوس اور مائع میں سے کچھ نہیں بچا لیکن گیس کا معاملہ مختلف ہے۔
اور یہ سیزر کے ساتھ تو خاص نہیں، کسی تاریخی کردار، چنگیز خان کے گھوڑے یا پرانے سرکس کے ہاتھی کے ساتھ بھی یہ حساب کیا جا سکتا ہے۔ فزکس اور کیمسٹری کے کئی کورسز میں اس سوچ کے تجربے کی مشق کسی کردار کو لے کر کروائی جاتی ہے۔ ٹھوس برِاعظموں اور مائع سمندروں کے اوپر گیس کے اس کرے نے زمین کو شکل دی ہے۔ یہ نظر نہ آنے والی ہوا بھی خود ایک مادی شے جو جگہ گھیرتی ہے اور وزن رکھتی ہے۔ یہ بہت عام لگے والا تصور پرانی نہیں بلکہ سترہویں صدی کی دریافت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا ہمارے ماحول کی اہم ترین چیز ہے۔ خوراک کے بغیر ہفتوں رہا جا سکتا ہے۔ پانی کے بغیر کئی دن گزارے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہوا کے بغیر بمشکل ہی چند منٹ۔ ہوا بے رنگ اور بے بو ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ گونگی ہے۔ اس کی آواز نہیں لیکن یہ ہمیں اپنی کہانی سنانے کو بے تاب ہے۔
تو چلیں پھر شروع کرتے ہیں
(جاری ہے)
یہ سیریز اس کتاب سے
Caesar's Last Breath: The Epic Story of Air Around Us by Sam Kean