Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

درختوں کی زندگی (43) ۔ جنگل ۔ سبزہ اور احساس

جانوروں کے مقابلے میں ہمیں پودوں کو سمجھنے میں اتنی دشواری کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ ارتقا کی تاریخ ہے۔ نباتات کا راستہ جلد الگ ہو گیا تھا۔ ہم...


جانوروں کے مقابلے میں ہمیں پودوں کو سمجھنے میں اتنی دشواری کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ ارتقا کی تاریخ ہے۔ نباتات کا راستہ جلد الگ ہو گیا تھا۔ ہماری حسیات الگ طرح سے ڈویلپ ہوئی ہیں اور یہ وجہ ہے کہ پودوں کے اندر کی دنیا کی کیفیت ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے۔
صاف نیلے آسمان کے نیچے درخت کا چمکدار سبز تاج ۔۔۔ ہمارے لئے رنگوں کا یہ امتزاج خوبصورت فطری منظر ہے۔ کیا درخت بھی اس سے اتفاق کریں گے؟
درختوں کی بیشتر انواع بھی اس نیلے آسمان کی چاہت رکھتی ہیں۔ یہ ان کے لئے پیغام ہے کہ “کھانا کھل گیا ہے”۔ مطلع صاف ہو اور روشن دن میں دھوپ میں نہایا ہوا درخت خوب مزے سے فوٹوسنتھیسس کر سکتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، روشنی اور پانی سے شوگر، سیلولوز اور دیگر کاربوہائیڈریٹ بن سکتے ہیں۔
اس میں سبز رنگ کی الگ اہمیت ہے۔ لیکن اس طرف جانے سے پہلے ایک اور سوال؟ ہماری دنیا رنگوں سے بھری ہوئی کیوں ہے؟ دھوپ سفید ہے اور جب یہ منعکس ہوتی ہے تو بھی سفید ہوتی ہے۔ لیکن ہر میٹیریل روشنی کو الگ طریقے سے جذب کرتا ہے یا کسی اور طرح کی ریڈی ایشن میں بدلتا ہے۔ ہماری آنکھ تک صرف وہی ویولینتھ پہنچتی ہے جو باقی رہ جائے۔ اشیا اور جانداروں کے رنگوں کا تعلق اس سے ہے کہ کونسی روشنی منعکس ہو رہی ہے۔ اور درختوں کے پتوں کے معاملے میں، یہ رنگ سبز ہے۔
لیکن پتے سیاہ کیوں نہیں؟ یہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تمام روشنی جذب کر لیں؟ کلوروفل پتوں کو روشنی پراسس کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اگر درخت روشنی کو انتہائی ایفی شنٹ طریقے سے پراسس کر لیتے تو تمام روشنی جذب کر لیتے۔ جنگل دن کو بھی رات ہی کی طرح سیاہ اور تاریک ہوتا۔
لیکن کلوروفل میں ایک کمزوری ہے۔ اس کو green gap کہا جاتا ہے۔ یہ رنگ کے سپیکٹرم کا وہ حصہ ہے جسے یہ استعمال نہیں کر سکتی اور یہ بغیر استعمال ہوئے واپس پلٹ جاتی ہے۔ اس کمزوری کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ والی فاضل روشنی دیکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہمیں تقریبا تمام پودے سبز نظر آتے ہیں۔ ہمارے لئے خوبصورت، لیکن درختوں کے لئے بے کار۔ یہ روشنی درختوں کا کچرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پودے دیکھتے ہیں جن کے پتے سبز نہیں ہوتے۔ پارکوں میں لگے سرخ پتوں والے پودے زیبائش کے لئے لگائے جاتے ہیں کہ یہ سبز کے سمندر میں نمایاں ہوں۔
عام درختوں پر نئے پھوٹتے ہوئے پتے نازک ٹشو کو دھوپ کی الٹراوائلٹ شعاعوں سے بچانے کے لئے اینتھوسائنن استعمال کرتے ہیں۔ یہ سن بلاک کا کام کرتا ہے۔ جب پتہ بڑا ہوتا ہے تو یہ کیمیکل انزائم کی مدد سے توڑ لیا جاتا ہے اور سبز پتا نکل آتا ہے۔ کچھ درختوں میں میٹابولزم کے سبب یہ انزائم پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ اپنے سن بلاک سے جان نہ چھڑا پاتے۔ اور اس وجہ سے ان کے پتے سرخ روشنی کو بھی منعکس کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روشنی کا کچھ حصہ ضائع کر دیتے ہیں۔ ایسے درخت قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں لیکن خود کو بڑے پیمانے پر قائم نہیں کر پاتے۔ لیکن انسان کو منفرد چیزیں پسند ہیں۔ اور ہم ایسی ورائٹی کو پسند کر کے پھیلاتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے باغوں میں یہ پائے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بنیادی وجہ جس کے سبب ہم درختوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، یہ رفتار ہے۔ ان کے بچپن اور جوانی ہم سے دس گنا زیادہ دورانیے پر ہے۔ ان کی زندگی ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ پتے کھولنا، نئی شاخ اگانا جیسی حرکات ہفتوں لے جاتی ہیں۔ اور ہم انہیں جامد وجود سمجھتے ہیں جو بس پتھروں سے ذرا ہی مختلف ہیں۔
اور جنگل میں جو آوازیں غالب ہیں، وہ ہوا پر پتوں کا سرسرانا یا ٹہنیوں کا چرچرانا ہیں۔ یہ درخت کی اپنی نہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ ان کو بس ایک “شے” سمجھ لیا جاتا ہے۔ لیکن جو پراسس تنے کے اندر ہو رہے ہیں، وہ اس سے زیادہ تیز ہیں۔ مثلا، پانی اور غذا کی ٹرانسپورٹ ایک تہائی انچ فی سیکنڈ پر ہو رہی ہو گی۔
درختوں کے زندگی کے بارے میں یہ بصری سراب ہے اور اس میں حیرت کی بات نہیں۔ ہم اپنی بصارت پر انحصار کرتے ہیں۔  اور بصارت تیز حرکت کو نمایاں کرتی ہے۔
جانداروں میں بھی پرندوں اور ممالیہ کی بڑی انواع ہماری توجہ لیتی ہیں۔ خاموش اور شرمیلے باسی اوجھل رہتے ہیں۔ مٹی میں بسنے والی چھوٹی مخلوقات نظرانداز کر دیتے ہیں۔
(جاری ہے)