درختوں کی زندگی سست رفتار ہے لیکن منصوبہ بندی کے بغیر نہیں۔ جنگل میں اگلی نسل کب آگے بڑھانی ہے؟ یہ فیصلہ کم سے کم ایک برس پہلے لے لیا جاتا ہ...
درختوں کی زندگی سست رفتار ہے لیکن منصوبہ بندی کے بغیر نہیں۔ جنگل میں اگلی نسل کب آگے بڑھانی ہے؟ یہ فیصلہ کم سے کم ایک برس پہلے لے لیا جاتا ہے۔ یہ عمل اب کریں یا پھر ایک دو سال کا وقفہ دے دیا جائے؟ یہ فیصلہ بہار میں لیا جاتا ہے۔ کونیفر جیسے درخت تو اپنے بیج ہر سال دنیا میں بھیجتے ہیں لیکن پتے جھڑنے والے درختوں کی حکمت عملی بالکل مختلف ہے۔ جنگل میں یہ درخت پتے کھلنے سے پہلے یہ سب مل کر طے کرتے ہیں۔ اکٹھے اس لئے کہ ان کے جینز آپس میں زیادہ اچھے طریقے سے مل سکیں۔ ہر سال اس لئے نہیں، کہ یہ چرنے والے جانوروں سے بچنے کی حکمتِ عملی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوط یا شفتالو کے میوے ہرن یا جنگلی سوٗر وغیرہ کی مرغوب غذا ہے۔ اس میں پچاس فیصد تک تیل یا نشاستہ ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی اور خوراک سے زیادہ غذائیت ہے۔ چرنے والے جانور ان کا صفایا کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ خزاں تک کوئی کوئی ہی بچتا ہے۔ اس لئے انہوں نے طے کرنا ہے کہ یہ ایسا کام ہر سال نہ کریں تا کہ یہ جانور اپنی خوراک کے لئے ان پر انحصار نہ کرنے لگ جائیں۔ بغیر اس خوراک کے کچھ جانور مر جائیں گے یا اگلی نسل نہیں چلا سکیں گے۔ ان جانوروں کی تعداد کم ہو گی اور بیجوں کی زیادہ تو ہی ان درختوں کی اگلی نسل چل سکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ماسٹ کے سال” جنگلوں میں ایک قدیم استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ یہ وہ سال ہیں جب یہ درخت اپنے بیج دیتے ہیں۔ ان سالوں میں ان جنگلی جانوروں کی اگلی نسل بھی زیادہ بڑھتی ہے۔ ان سالوں میں جانور پالنے والنے اپنے جانوروں کو جنگلوں میں لے جا کر فربہ کرتے رہے ہیں۔ اس سے اگلے سال جب یہ بیج نہیں ہوتے تو ان جانوروں کی تعداد بھی تیزی سے گرتی ہے۔ جنگل کا فرش خالی رہ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن سالوں میں یہ درخت اپنے افزائشِ نسل روک دیتے ہیں، یہ کئی کیڑوں کے لئے بھی اچھی خبر نہیں ہوتی۔ شہد کی مکھیاں بھی متاثرین میں سے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی تعداد پرانے جنگلوں میں ویسے بھی اتنی زیادہ نہیں اور ان درختوں کو ان ننھے مددگاروں کی بھی پرواہ نہیں۔ ان درختوں کی دوستی ہوا سے ہے اور یہ تعداد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہوا ان کا زرِ گُل لے اڑتی ہے اور پڑوس کے درختوں تک پہنچا دیتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی، ہوا نے تو چلنا ہی ہے۔ شہد کی مکھیوں بارہ ڈگری سے کم درجہ حرارت پر باہر نہیں نکلتیں۔ یہ درخت ان پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔
جو درخت ہر سال بیج دیتے ہیں، ان کے بیج زیادہ غذائیت نہیں رکھتے اس لئے انہیں جانوروں کا ڈر کم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صنوبر کے کئی درخت اس قدر پولن پیدا کرتے ہیں کہ ہلکی ہوا میں بھی ہر طرف بکھرے ہوتے ہیں۔ جب یہ پورے جوبن پر ہوں تو لگتا ہے کہ دھواں دے رہے ہیں۔ یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو بڑا اہم ہے۔
یہ درخت خود اپنے آپ سے جنسی عمل، یا اِن بریڈنگ سے کیسے بچتے ہیں اور کیسے اس بات کو یقنی بناتے ہیں کہ اگلی نسل میں جینیات الگ الگ درختوں سے آئیں اور نئی نسل صحت مند ہو؟
درخت آج تک مضبوط و توانا ہیں کیونکہ یہ کام کامیابی سے سرانجام دے لیتے ہیں۔ اور ہر نوع میں اچھا جینیاتی تنوع ہے۔ اس کیلئے ان کے پاس کئی اچھوتے حربے ہیں۔
(جاری ہے)