قسم قسم کے کیمیکل پیدا کرنے کی صلاحیت درختوں کو حملے سے بچانے کے نظام ہیں۔ اور یہ کیڑوں کی پہچان رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ اپنے دشمن کیڑوں کو...
قسم قسم کے کیمیکل پیدا کرنے کی صلاحیت درختوں کو حملے سے بچانے کے نظام ہیں۔ اور یہ کیڑوں کی پہچان رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ اپنے دشمن کیڑوں کو ان کے لعاب سے پہچان لیتے ہیں۔ اور یہ اس قدر زبردست پہچان ہوتی ہے کہ یہ کیڑے کے مطابق خاص فیرومون پیدا کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے اس کیڑے کو شکار کرنے والے پرندے یا دوسرے جاندار کو ان کی موجودگی کا اعلان کرنے کیلئے ہیں اور یہ ان کی طرف متوجہ ہو کر درخت کو ان سے نجات دلا سکتے ہیں۔
مثلاً، ایلم یا پائن کے درختوں ایک بھِڑ کو پکارتے ہیں جو کہ پتے کھانے والے کنکھجورے کے اندر انڈے دیتی ہے۔
جب اس کے لاروا بنتے ہیں تو یہ بڑے کنکھجوروں کو اندر سے آہستہ آہستہ کھا جاتے ہیں۔ یہ ایک بُری موت ہے۔ لیکن درخت کو بھی اپنا دفاع کرنا ہے تا کہ یہ نقصان پہنچانے والوں سے نجات پا کر پھل پھول سکیں۔
اور یہاں پر ایک اور اہم نکتہ ہے۔ درخت لعاب کو پہچان سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک اور مہارت رکھتے ہیں۔ یعنی ان کے پاس چکھنے کی صلاحیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بو کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہوا میں زیادہ فاصلے تک نہیں پھیل پاتے۔ سو گز سے زیادہ دور رابطہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا ایک فائدہ بھی ہے۔ درخت کے اپنے اندر سگنل کی ترسیل سست رفتار ہے۔ اگر درخت خود اپنے سٹرکچر کے دوسرے حصوں کو خطرے کا پیغام بھیجنا چاہے تو تیزترین ذریعہ یہی ہے۔ اور اپنے پر حملہ آور کسی کیڑے کے شکاریوں کو پیغام بھیجنے کا موثر ترین ذریعہ بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت خود اپنے دفاع کے کئی زبردست اور موثر رکھتے رکھتے ہیں۔ مثلا، بلوط اپنی چھال اور پتوں میں زہریلا کیمیکل (tannin) رکھتا ہے جو کہ چبانے والے کیڑوں کو مار سکتا ہے یا ان کا ذائقہ اتنا بدل دیتا ہے کہ یہ ان کے لئے مزیدار نہیں رہتے۔ بیدمجنوں سیلیسائیلک ایسڈ پیدا کرتا ہے جو اسی طرز کا کام کرتا ہے۔
اور یہ سیلیسائلک ایسڈ ہی ہے جس سے aspirin بنتی ہے۔ اور اس درخت کی چھال سے بننے والی چائے سے سردرد کو آرام آتا ہے اور بخار کم ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت صرف ہوا میں بو پھیلانے پر انحصار نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام ہمسائیوں تک پیغام نہ پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر سوزن سمارڈ نے دریافت کیا کہ یہ ایک دوسرے سے جڑوں کے ذریعے بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ اس میں زیرِزمین فنگس کے نیٹورک کام کرتے ہیں جو جڑوں کے سِروں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہر موسم میں کام کرتے رہتے ہیں۔
حیران کن طور پر جڑوں کے ذریعے پھیلائے جانے والی خبریں میں نہ صرف کیمیکل کے ذریعے ہوتی ہیں بلکہ برقی سگنل سے بھی جو کہ ایک تہائی انچ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ اور جب بلوط کے جنگل میں یہ پیغام جڑوں کے ذریعے پھیلتا ہے تو سب اپنے رگوں میں ٹینن کو پمپ کرنے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درختوں کی جڑیں بہت دور تک پھیلتی ہیں۔ ان کے چھتر سے دگنے سائز سے بھی زیادہ۔ اس لئے ہمسائیوں کی جڑوں کے سسٹم سے ان کا الجھاؤ ہوتا ہے۔ اور رابطے رہتے ہیں۔ لیکن ان میں استثنا بھی ہوتے ہیں۔
جنگل میں بھی تنہائی پسند تارکِ دنیا درخت ملتے ہیں۔ کیا ایسے غیرسماجی درخت معاشرے میں شرکت نہ کر کے آپس کے روابط میں خلل ڈالتے ہیں؟ جنگل کی خوش قسمتی ہے کہ ایسا نہیں۔ فنگس یہاں پر فٹافٹ اطلاعات کی ترسیل کے میڈیم کا کام کرتی ہے۔ یہ ویسا کردار ادا کرتی ہے جیسا انٹرنیٹ میں فائبر آپٹکس کی تاریں۔ یہ پتلے تار زمین کے نیچے ناقابلِ یقین کثافت کے ساتھ بکھرے ہوتے ہیں۔ چمچ بھر مٹی میں یہ میلوں کا تار ہو سکتا ہے۔ صدیوں میں ایک فنگس کئی مربع میل تک پھیل سکتی ہے اور جنگل بھر میں نیٹورک بنا سکتی ہے۔ ان پر کیڑوں، خشک سالی اور دوسرے خطرات و واقعات کی خبریں دوڑتی پھرتی ہیں۔
کیا انفارمیشن ہوتی ہے اور اس کا تبادلہ کیسے ہوتا ہے؟ ہم اسے ابھی صرف سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔ سمارڈ نے دریافت کیا کہ درخت دوسری انواع کے درختوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ ان سے بھی جن سے یہ مقابلے پر ہوتے ہیں۔
اور اس میں فنگس کا اپنا ایجنڈا ہے اور اس کیلئے یہ اطلاعات اور وسائل کی برابری پر مبنی تقسیم کو ترجیح دیتی ہیں۔
(جاری ہے)