Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

درختوں کی زندگی (40) ۔ سخت جان

پھولدار جنگل پودے ہر سال اگتے ہیں، گرمیوں میں بڑھتے ہیں، بیج بناتے ہیں اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ہر نئی نسل کے پاس یہ موقع ہے کہ جی...


پھولدار جنگل پودے ہر سال اگتے ہیں، گرمیوں میں بڑھتے ہیں، بیج بناتے ہیں اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ہر نئی نسل کے پاس یہ موقع ہے کہ جینیاتی تبدیلیاں رونما ہو سکیں۔ یہ میوٹیشن اس وقت ہوتی ہے جب یہ افزائش نسل کرتی ہیں۔ اور ہر وقت بدلتی اس دنیا میں بقا کے لئے ایسا کئے جانا لازم ہے۔
تیزرفتار افزائش نسل ایک نوع کے لئے بہت سے فوائد لے کر آتا ہے۔  چوہے چند ہفتوں بعد نئی نسل تیار کر چکے ہوتے ہیں۔ مکھیاں اس سے بہت تیز ہیں۔ ہر نسل میں جینیاتی خاصیتیں آگے منتقل ہوتی ہیں۔ جین کی کاپی میں نقص رہ سکتا ہے اور کوئی خوش قسمتی ایسی ہو سکتی ہے کہ یہ نقص ماحول سے مطابق کا اچھوتا طریقہ دے دے۔ اور یہ نسلوں میں آگے پھیلتا جاتا ہے۔ کسی نوع کو ماحول سے مطابقت کا موقع دیتا ہے اور اس کی بقا کی ضمانت دیتا ہے۔ جس نوع کی عمر کا دورانیہ جتنا کم ہو گا، یہ اتنا ہی جلد ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت اس سائنسی بیانیے میں خاص دلچسپی نہیں دکھاتے۔ ان کا مقصد بوڑھے اور قدیم ہونا ہے۔ صدیوں تک یا ہزاروں سالوں تک۔ اس میں ہر پانچ سال میں یہ اگلے بیج پیدا کریں بھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ درختوں کی اگلی نسل پیدا ہوتی ہے۔ لاکھوں بچے پیدا کرنے کا فائدہ نہیں اگر انہیں اگنے کے لئے خالی جگہ یہ دستیاب نہیں۔ اگر ماں دھوپ پر قبضہ کر چکی ہے تو اس کے قدموں میں کچھ خاص نہیں ہوتا۔ ایسے نوجوان پودے جن میں بہترین خاصیتیں ہوں، انہیں بھی اکثر صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر اپنے جین آگے منتقل کریں۔ سب کچھ بہت سست رفتار ہے۔ اور درخت ایک ناممکن مشکل کا شکار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماحول تیزی سے بدلتا ہے۔ زیورخ میں ایک بہت بڑے تعمیراتی کام کے دوران مزدوروں کو کٹے ہوئے تنے نظر آئے۔ ایک محقق نے ان سے نمونے لے کر اس پر تفتیش کی۔ اس سے جو نتیجہ نکلا، وہ یہ کہ پائن کے یہ درخت یہاں پر چودہ ہزار سال سے تھے۔ اور اس دوران ہونے والی درجہ حرارت کی تبدیلیاں بہت زیادہ تھیں۔ تیس سال میں درجہ حرارت 23 ڈگری گرا تھا۔ اور پھر بعد میں واپس اتنا ہی بڑھ گیا تھا۔  یہ موسمیاتی تبدیلی کی بدترین پیشگوئی سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ درخت اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دو الگ قسم کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ جینیاتی تنوع اور رویہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت بہت قسم کے ماحول سے برداشت رکھتے ہیں۔ اور درجہ حرارت کے بارے میں لچکدار ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ جب درجہ حرارت اور بارش میں اتار چڑھاؤ ہو، تو ساتھ ہی جانداروں میں بھی ہوتا ہے۔ نئے جانور، کیڑے اور فنگس آ جاتے ہیں۔ اور درختوں کو ان کے خلاف دفاع بھی تبدیل کرنا ہے۔
موسم بھی زیادہ تیزی سے بدل سکتا ہے۔ درخت کے پاس ٹانگیں تو ہیں نہیں کہ کہیں اور چل دے۔ اسے صورتحال کا مقابلہ کرنا ہی ہے۔
جب پھول میں بیج بن رہے ہوتے ہیں تو یہ ماحولیاتی حالات کے حساب سے ردعمل دیتے ہیں۔ اگر موسم گرم اور خشک ہے تو اس کے مطابق جین فعال ہوتے ہیں۔ سائنسدان اسے ثابت کر چکے ہیں کہ سپروس کے جو بیج گرمی میں بنے ہوتے ہیں، یہ زیادہ گرم موسم برداشت کر سکتے ہیں لیکن سردی سے مزاحمت کم ہوتی ہے۔
درخت بڑے ہو کر بھی ایڈاپٹ کر سکتے ہیں۔ یہ سیکھنے کا عمل ہے۔ اگر ایک سپروس کا درخت خشک موسم گزار لے جہاں پانی کی کمیابی ہو تو یہ آئندہ پانی کے استعمال میں زیادہ محتاط ہو گا۔ پانی پتوں سے اڑتا ہے۔ اگر درخت نوٹ کرے کہ پانی کی مستقل کمی ہے تو یہ یہاں پر زیادہ موٹا کوٹ پہن لے گا۔ پتوں کی سطح زیادہ موم والی ہو جائے گی۔ اضافی تہہ چڑھا کر خلیے کی دیوار موٹی ہو جائے گی تا کہ پانی محفوظ رہے۔ اس کی وجہ سے اسے ہوا لینے میں مشکل ہو گی لیکن یہ توازن ہے جو اسے برقرار رکھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب رویے کی تبدیلی کے ممکنات ختم ہو جائیں تو جینیات کی باری آتی ہے۔ درختوں میں اگلی نسل آنے میں درکار وقت طویل ہے۔ جلد مطابقت کی توقع عبث ہے۔ اور یہاں ایک اور حربہ ہے۔
انسان جینیاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتے ہیں لیکن درخت اس کے مقابلے میں زیادہ دوری رکھتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کھڑے رشتہ داروں کی جینیات میں فرق زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر درخت کی خاصیتیں میں فرق زیادہ ہے۔ کچھ سردی بہتر برداشت کر لیں گے، کچھ پانی کی کمی۔ کچھ کے خلاف کچھ کیڑوں کے خلاف بہترین دفاعی میکانزم ہو گا۔ اور کچھ زیادہ بارش کا مقابلہ آسانی سے کر لیں گے۔ جب موسم بدلے گا تو وہ درخت مر جائیں گے جو اس سے مطابقت نہیں رکھ سکین گے۔ چند بوڑھے ختم ہو جائیں گے لیکن باقی جنگل کا بڑا حصہ کھڑا رہے گا۔ اگر تبدیلی بہت زیادہ ہو، تب بھی سارا جنگل ختم نہیں ہو جائے گا۔ اتنے زیادہ درخت بچ جائیں گے کہ یہ اپنی اگلی نسل کے لئے پھل اور سایہ پیدا کریں۔
اور یہ وجہ ہے کہ خواہ ماحول کی بڑی تبدیلی کئی درختوں کو ختم کر دے لیکن جنگل رواں دواں رہتا ہے۔ ماسوائے اس وقت، جب لکڑی کی خاطر اس کا صفایا اوزاروں سے کر دیا جائے۔
(جاری ہے)