درخت چل نہیں سکتے۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ جس جگہ پر بیج پھوٹا، ان کو تمام عمر یہیں پر رہنا ہے۔ لیکن جنگل چلتے ہیں۔ جب درخت بیج میں پایا جانے وال...
درخت چل نہیں سکتے۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ جس جگہ پر بیج پھوٹا، ان کو تمام عمر یہیں پر رہنا ہے۔ لیکن جنگل چلتے ہیں۔ جب درخت بیج میں پایا جانے والا ایمبریو ہوتا ہے تو یہ آزاد ہے۔ درخت سے الگ ہوتے ہی اس کا سفر شروع۔
کچھ انواع زیادہ جلدی میں ہوتی ہیں۔ ایسے درخت اپنی اگلی نسل کے ایمبریو کو باریک بالوں میں لپیٹ کر آزاد کرتے ہیں۔ ایسی انواع کو بیج ہلکا بنانا پڑتا ہے جس میں اگلی نسل کے لئے غذائیت زیادہ نہیں ہوتی۔ پاپلر کے درخت اس کی مثال ہیں جن کا بیج آزاد ہو کر آدھا میل تک دور جا کر گرتا ہے لیکن غذائیت کی کمی کا مطلب یہ کہ بھوک پیاس ان کو نوعمری میں جلد مار سکتی ہے۔ کچھ انواع، جیسا کہ میپل، ایش وغیرہ کا بیج اس سے بھاری ہوتا ہے۔ ان کا پروں جیسا سٹرکچر تیز ہوا کی صورت میں ہی ان کو دور تک بکھیر سکتا ہے۔ کچھ اور درختوں کے بیج اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ ان کو جانوروں کی مدد لینا پڑتی ہے۔ چوہے گلہری یا جے برڈ وغیرہ کی۔ ایک چوہا بیج لے کر دور بھاگا۔ راستے میں الو نے اس چوہے کو شکار کر لیا۔ یہ شکار اس درخت کیلئے کامیابی بن گیا۔
بیدِ مجنوں یا پاپلر جیسے درخت اپنے بیج دور تک آسانی سے پہنچا سکتے ہیں، یہ جلد نئی زمین کو اپنی کالونی بنا لیتے ہیں۔ درختوں کے لئے یہ سفر اس لئے ضروری ہے کہ موسم ہمیشہ بدل رہا ہے۔ ایک جگہ کھڑے رہنا آپشن نہیں۔ صدیوں کے مختصر ٹائم سکیل پر بھی ایک علاقے کا موسم یکساں نہیں رہتا۔ کبھی زیادہ گرم، کبھی زیادہ سرد، کبھی زیادہ خشک، کبھی زیادہ نم۔ اس وقت جنگلوں کی یہ ہجرت یورپی پرانے جنگلوں میں شمال کی طرف کی جا رہی ہے۔ اور نہیں، اس کی وجہ حالیہ گلوبل وارمنگ نہیں۔ یہ ہجرت حالیہ برفانی دور کے خاتمے سے اب تک جاری ہے۔
آج سے تیس لاکھ سال قبل، وسطی یورپ میں مقامی بیچ کے درخت بھی تھے اور اس کے علاوہ بڑے پتوں والے بیچ کے درخت بھی۔ سست رفتار بڑے پتوں والے درخت معدوم ہو گئے جس کی ایک وجہ کوہِ ایلپس تھی۔ اس پہاڑ کو یہ درخت پار نہیں کر سکے تھے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں یہ معدوم نہیں ہوئے کیونکہ امریکہ میں شرقا غربا کوئی پہاڑی کا سلسلہ درختوں کے اس سفر میں قدرتی رکاوٹ نہیں بنتا۔ برفانی دور میں یہ جنوب کا سفر کرتے ہیں اور برفانی دور کے خاتمے کے بعد واپس شمال کا۔
یورپ میں کئی انواع کوہِ ایلپس کو بھی پھلانگ گئی تھیں اور واپس کا سفر کر رہی ہیں۔ بیچ کے درختوں کی رفتار فی سال ایک چوتھائی میل ہے۔ جگہ لینے میں بیچ کے درخت کا مقابلہ جب شاہ بلوط یا ہیزل کے درخت سے ہوتا ہے تو یہ جگہ کے حصول کے لئے یہ لڑائی بیچ کے درخت کو کرنا اچھی طرح آتی ہے۔ سائے میں پل کر بڑا بھی ہو سکتا ہے اور اپنا قد زیادہ اونچا نکال کر دوسروں کی دھوپ روک دیتا ہے اور طاقتور درختوں کو شکست دے دیتا ہے۔ درختوں کی اس جنگ میں یہ ماہر ہے اور چار ہزار سال قبل یہ ایسے جنگیں وسطی یورپ میں جگہ جگہ پر جیت چکا ہے۔ ان کا بے رحم اور فاتحانہ مارچ اس وقت اس کو جنوبی سویڈن تک لے آیا ہے۔ اور یہ مارچ ختم نہ ہوتا، اگر انسان مداخلت نہ کرتا۔
پچھلے چند ہزار سال میں انسانوں نے اپنے مویشی چرانے جنگلوں میں جانا شروع کر دیا۔ یہ مویشی ان درختوں کے بیجوں اور چھوٹے درختوں کو کھاتے رہے ہیں۔ قدرتی جنگل ممالیہ کے لئے زیادہ غذا نہیں رکھتا اس لئے دو سو سال تک اگنے والے کمسِن درخت کو پہلے زندگی بچانے میں اس طرح کا خطرہ کبھی نہیں رہا تھا۔ دوسرا مسئلہ یہاں کے شکاری ہیں جس کی وجہ سے ہرنوں کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے۔ ہرنوں کا اضافہ ان درختوں کے لئے اچھی خبر نہیں۔ یہاں کے جنگل اب انسان کے رویے کے بدلنے کے انتظار میں ہے تا کہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
یورپ میں سب سے سست رفتار درخت سِلور فر کا درخت ہے جو سالانہ تین سو گز کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ جبکہ سپروس اور پائن کے درخت تیزی سے سفر کر رہے ہیں۔ ان سلور فر کے لئے زندگی مشکل ہے۔ وسطی یورپ کے مقامی درخت سکنڈے نیویا کے قریب پہنچ رہے ہیں، جبکہ یہ ابھی محض شمالی جرمنی میں ہارز کے پہاڑوں تک ہی پہنچا ہے۔
بیچ کا درخت وسطی یورپ میں کیوں کامیاب رہا ہے؟ اس کی وجہ اس کی یہاں کے موسم سے مطابقت اور پانی کا کفایت شعارانہ استعمال ہے۔ جو درخت زیادہ بارش والے علاوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں، وہ پانی بچانے کی اتنی کوشش نہیں کرتے۔ بیچ کے درخت خشک سالی میں بھی اچھی رفتار سے بڑھ جاتے ہیں، روشنی کا اچھا استعمال کر لیتے ہیں اور اپنے لئے خود مائیکروکلائمیٹ بنا لیتے ہیں۔ لیکن اگر موسم گرم ہوا تو اس کو یہ برداشت نہیں کر سکتے اور وہاں پر دوسرے درختوں سے شکست کھا جائیں گے۔ اسی وجہ سے بیج کا غلبہ صرف اسی علاقے میں ہے۔ زیادہ گرم مشرقی یورپ میں بلوط غالب ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان سب کو اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ شمال کی طرف چلتے رہنا ہے، ورنہ ان کی زندگی مشکل ہوتی جائے گی۔
وقت کے ساتھ دنیا بدل رہی ہے جو ٹھہر جاتا ہے، بچتا نہیں ہے۔ تمام عمر ایک جگہ کھڑے رہنے والے درختوں کے جنگل بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔
(جاری ہے)