دنیا کے سب سے بلند قامت درخت کیلے فورنیا کے ریڈوڈ ہیں۔ 300 سے 350 فٹ تک کا قد اور آٹھ فٹ سے زیادہ موٹائی کا تنا ۔۔۔ یہ شاندار نظارہ ہیں۔ ان...
دنیا کے سب سے بلند قامت درخت کیلے فورنیا کے ریڈوڈ ہیں۔ 300 سے 350 فٹ تک کا قد اور آٹھ فٹ سے زیادہ موٹائی کا تنا ۔۔۔ یہ شاندار نظارہ ہیں۔
انیسویں صدی میں انہیں یورپ لے جایا گیا۔ یورپی بادشاہوں نے انہیں پارکوں میں ٹرافی کے طور پر لگایا۔ لیکن یہاں پر اگنے والے یہ درخت بمشکل بھی ڈیڑھ سو فٹ تک پہنچے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ ابھی ان کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ 150 سال میں تو ابھی یہ بچے ہی ہیں۔ یہ بات غلط نہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے گھربار سے دور ان کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں۔ والدین، چچا، خالہ ۔۔ ان کے بغیر ہی انہیں بڑھنا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگرچہ یہ صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن اپنی توانائی درست جگہ پر نہیں لگا رہے۔
جس جگہ پر یہ لگے ہوئے ہیں، کیا دوسرے درخت ان کی تربیت نہیں کر سکتے؟ نہیں، وہ الگ انواع ہیں۔ ویسے ہی جیسے کینگرو کی تربیت وہیل یا چوہا نہیں کر سکتا۔ قریب کوئی ماں نہیں جو یہ نظر رکھے کہ بڑھنے کی رفتار ضرورت سے زیادہ تو نہیں۔ ان کے گرد پرسکون، نم اور گرم ماحول بنائے۔ یہ تنہا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا مسئلہ مٹی کا ہے۔ پرانے جنگل میں نرم اور نم مٹی ہے جس میں نامیاتی مادہ بھرا ہے۔ ان کی نازک جڑوں کے لئے بہترین ہے لیکن شہروں کے قریب یہ دستیاب نہیں۔ بارش کا پانی جلد بہہ جاتا ہے۔ لوگوں کے چلنے سے مٹی سخت ہو جاتی ہے۔
جس طریقے سے شجرکاری کی جاتی ہے، یہ بھی تمام عمر درخت پر اثر دکھائے گی۔ انہیں نرسری میں پالا جاتا ہے اور سالوں کے بعد انہیں لگا دیا جاتا ہے۔ نرسری میں ہر سال ان کی جڑوں کی تراش خراش کی جاتی ہے تا کہ انہیں دوسری جگہ لے جانے میں مشکل نہ ہو۔ دس فٹ اونچے درخت کی جڑ بیس فٹ گہری جاتی ہے۔ نرسری میں یہ دو فٹ سے بھی کم ہوتی ہے۔ اور اس کے پتوں کو بھی تراشا جاتا رہتا ہے۔ یہ اس لئے کی جاتا ہے کہ درخت کو ہینڈل کرنا آسان رہے۔ لیکن جب جڑوں کو کاٹا جاتا ہے تو ان کے حساس سروں میں سے دماغ کی طرح کا سٹرکچر بھی کٹ جاتا ہے۔ یہ جڑ کی سمت بھانپنے کی حس کو متاثر کرتا ہے۔ اور یہ گہرائی میں جانے کے بجائے پھیلنے لگتی ہیں۔ اور یہ درخت کی خوراک لینے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروع میں، نوجوان درختوں کو فرق نہیں پڑتا۔ دھوپ میں یہ دل بھر کے خوراک بناتے ہیں۔ باغبان انہیں پانی دیتے رہتے ہیں تو اس کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ ان پر سخت ڈسپلن نہیں۔ “ایسا نہ کرو”، “ذرا ایک سو سال صبر کر لو”، “تمہارے لئے روشنی بند”، “بڑے ہو گے تو میری نصیحت سمجھ آئے گی” ۔۔۔ ان کو سخت گیر ماں کا ساتھ نہیں۔ سیدھا بڑا نہ ہونے پر کوئی گرفت نہیں۔ من مرضی کرنے والا درخت ہر سال خوب بڑا ہوتا ہے۔ ایک وقت میں اس کے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں۔
ایک 65 فٹ قد والے درخت کو بہت سا پانی اور وقت درکار ہے۔ ہر درخت کی جڑ کو گیلا کرنے کے لئے مالی کو بہت سے گیلن پانی انڈیلنا پڑتا ہے۔ اور اسے توجہ ملنا کم ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈ وُڈ کو پہلے تو اس کا پتا نہیں لگا۔ دہائیوں تک یہ اپنی مرضی کی زندگی گزارتا رہا تھا۔ اس کے تنے کے اندر کے خلیات بڑے ہو گئے ہیں۔ ان میں ہوا ہے۔ اور فنگس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ان کی شاخیں بھی بڑھنے کے آداب کی پاسداری نہیں کر رہیں۔ پارک کے درختوں کو پرانے جنگل کے آداب کا پتا ہی نہیں تھا۔ تنے کے نچلے حصے میں شاخوں کو گرا دینا تھا۔ لیکن اس کی موٹی شاخیں نیچے تک ہیں۔ مالی نے چھ سے دس فٹ تک کی شاخوں کو کاٹ دیا ہے۔ لیکن اگر جنگل میں ان درختوں کو دیکھا جائے تو موٹی شاخیں 65 فٹ سے نیچے ہیں ہی نہیں۔ اور کچھ میں 165 فٹ سے نیچے کچھ نہیں۔
ان کا حلیہ بتا دیتا ہے کہ درخت کی پرورش کہاں پر ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جڑ گہری نہیں ہے اور اتنی سپورٹ نہیں دے رہی جتنی اس کو ضرورت ہے۔ اور یہ خطرناک ہے۔ پرانے جنگل میں درخت جڑ کو بہت گہرا گرا لیتے ہیں جس کی وجہ سے گریویٹی کا سنٹر نیچے رہتا ہے اور یہ بہت مستحکم ہوتے ہیں۔
یورپ میں آنے والے ریڈوڈ جب ایک سو سال کے ہو گئے تو زندگی کا آسان دور ختم ہو گیا۔ ان کی لکڑی قدرتی طور پر جراثیم کش اجزاء رکھتی ہے اور یہ دہائیوں تک فنگس کا مقابلہ کر لیں گے لیکن ان کی اوپر کی شاخیں مرجھا رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
پارک میں درخت کو خوبصورتی کے لئے تراشا جاتا ہے تو اگر زیادہ شاخیں کاٹ دی جائیں تو اس کا فوٹوسنتھسس کم ہو جاتا ہے اور جڑوں کی خوراک کم ہو جاتی ہے۔ فنگس سے مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے اور یہ کاٹے ہوئے حصے سے اندر آ سکتی ہے۔ لکڑی میں ہوا کی پاکٹ موجود ہیں۔ صرف چند دہائیوں میں (جو درخت کے لئے زیادہ وقت نہیں) درخت کا گلنا نظر آنے لگتا ہے۔ اس کے کئی حصے مر جاتے ہیں۔ اور چونکہ اس کے قرب و جوار میں اس کے رشتہ دار نہیں ہوتے جو کہ اسے مشکل وقت میں خوراک فراہم کر سکیں تو اسے جو کرنا ہے خود ہی اکیلے کرنا ہے۔ شہری درختوں کی تنے جلد گل سڑ جاتے ہیں۔ درخت کو کاٹ دیا جائے گا اور اس کی جگہ نیا لگا دیا جائے گا اور یہ ڈرامہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔
(جاری ہے)