Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

درختوں کی زندگی (34) ۔ بیماری

درختوں کی زیادہ تر انواع طویل عمر پاتی ہیں۔ چار سے پانچ سو سال کی عمر عام ہے۔ لیکن کسی انفرادی درخت کی متوقع عمر کا ان شماریات سے اندازہ نہی...


درختوں کی زیادہ تر انواع طویل عمر پاتی ہیں۔ چار سے پانچ سو سال کی عمر عام ہے۔ لیکن کسی انفرادی درخت کی متوقع عمر کا ان شماریات سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کسی بھی فرد کی طرح کسی کی عمر کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے۔ اس کی صحت اس کے ایکوسسٹم کے استحکام پر منحصر ہے۔ درجہ حرارت، نمی اور روشنی میں اچانک تبدیلی نہ آئے۔ اس کے علاوہ کیڑے، فنگس، بیکٹیریا اور وائرس اپنے لئے موقعے کی تلاش میں ہیں۔ درخت کو مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب توازن بگڑ جائے۔ عام حالات میں درخت اپنی توانائی استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لیتا ہے۔ اس کا زیادہ حصہ روزمرہ کی ضروریات پر صرف ہوتا ہے۔ اسے تنفس کرنا ہے، خوراک کو “ہضم” کرنا ہے۔ اپنے اتحادیوں کو شوگر دینا ہے اور تھوڑا تھوڑا کر کے روز بڑا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ذخائر چھپا کر رکھنا ہیں تا کہ یہ طفیلیوں سے لڑ سکے۔
 اس بچت کی ضرورت کبھی بھی پڑ سکتی ہے۔ درخت کی ہر نوع کے پاس دفاع کے لئے اپنی طرح کے کیمیکل بنانے کی ترکیبیں ہوتی ہیں۔ ان دفاعی کیمیکلز کو phytoncideb کہا جاتا ہے اور ان میں اینٹی بائیوٹک کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ ان پر بہت تحقیق کی جا چکی ہے۔
روسی سائنسدان بورس ٹوکن نے 1956 میں لکھا تھا کہ “اگر آپ صنوبر کے پتوں کو پیس کر پانی کے ایک قطرے میں ڈالیں گے جن میں پروٹوزوا ہو گا تو ایک سیکنڈ کے اندر اندر یہ پروٹوزوا مر جائے گا”۔ ٹوکن نے اپنے اس پیپر میں لکھا تھا کہ پائن کے جنگلات میں جراثیم نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کیونکہ اس کے پتوں سے جراثیم کش فائٹونساسئیڈ چھڑکے جاتے ہیں۔
اخرات کے پتوں میں ایسے کمپاؤنڈ ہیں جو کیڑوں سے اس قدر بہترین طریقے سے معاملہ کرتے ہیں کہ باغبانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اخروٹ کے درخت تلے بیٹھے کی جگہ بنا لیں۔ یہ سستانے کی بہترین جگہ ہے کیونکہ یہاں پر مچھر نہیں آئیں گے۔ کونیفر میں پائے جانے والے جراثیم کش اجزا اپنی منفرد بو رکھتے ہیں۔ گرمیوں کے دنوں میں جنگل اس سے بھرا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر درخت کے بڑھنے اور دفاع کے درمیان کا توازن بگڑ جائے تو درخت بیمار پڑ سکتا ہے۔ یہ اس وقت بھی ہو سکتا ہے جب اس کا پڑوسی وفات پا جائے۔ اچانک اس درخت کے پاس بہت سی اضافی روشنی ہے اور اب یہ دل کھول کر فوٹوسنتھیسس کر سکتا ہے۔ ایسا موقع سو سالوں میں ایک بار ملتا ہے۔ درخت دھوپ میں نہایا ہوا ہے۔ اور اس وقت یہ باقی سب بھول کر اپنی توجہ شاخیں نکالنے پر لگا دیتا ہے۔ اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ اس کے گرد کے باقی درخت بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اگلے بیس سال میں یہ جگہ بھر جائے گی۔ اور آپ کو اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ لینا ہے۔ اور اگر آپ درخت ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں۔
بڑھنے کی رفتار میں تیزی آ گئی ہے۔ پہلے سال میں ایک انچ قد بڑھتا تھا، اب یہ بیس انچ بڑھ رہا ہے۔ اس کے لئے توانائی درکار ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری یا حملے کی صورت میں دفاع کرنے کے لئے توانائی اتنی میسر نہیں ہو گی۔ اگر یہ خوش قسمت ہے تو پھر سب ٹھیک رہے گا۔ یہ اس علاقے پر اپنا چھتر پھیلا کر واپس پرانے طرزِ زندگی پر چلا جائے گا۔ لیکن اگر اس وقت کچھ غلط ہو گیا تو پھر اس کیلئے پریشانی کھڑی ہو جائے گی۔
فنگس کسی گری ہوئی شاخ پر حملہ کر سکتی ہے۔ یہ آہستہ سے تنے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ چھال پر رہنے والا بیٹل اسے منہ مار سکتا ہے اور اسے پتا لگ جائے گا کہ درخت کی طرف سے مضبوط جواب نہیں آیا۔ اس کا کھیل ختم ہو سکتا ہے۔ بظاہر صحتمند لگنے والا تنا اب خطرے میں ہو گا۔ کیڑوں کا حملہ تیز ہو گا، درخت کا ردعمل مقابلہ نہ کر پائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے حملوں کے آثار درخت کے سر پر پہلے نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے یہاں بڑھنا رک جاتا ہے۔ بیمار درخت کے پتے گھنے نہیں رہتے۔ چھال اترنے لگتی ہے۔ اور صحت گرنے لگتی ہے۔ جس طرح غبارہ پچک رہا ہو، ویسے اس کا چھتر خراب ہونے لگتا ہے۔ آندھیاں اس کی مردہ شاخوں کو اڑا لے جاتی ہیں۔
(جاری ہے)