درختوں میں رہنے والی بیشتر انواع درخت کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ درخت پر منحصر انواع ان گنت ہیں اور اس پر تحقیق زیادہ نہیں۔ خاص طور پر ان انو...
درختوں میں رہنے والی بیشتر انواع درخت کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ درخت پر منحصر انواع ان گنت ہیں اور اس پر تحقیق زیادہ نہیں۔ خاص طور پر ان انواع پر جو کہ جنگل میں درخت کے اوپر والے حصے پر رہتی ہیں کیونکہ مہنگی کرین یا کوئی اور طریقہ استعمال کرنا مشکل ہے۔ 2009 میں اس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر مارٹن گوسنر نے باواریا کے جنگل میں چھ سو سال پرانے، 170 فٹ اونچے درخت پر ایک طریقہ استعمال کیا۔ انہوں نے ایک کیڑے مار دوا (pyrethrum) کا سپرے کیا۔ اس نے بہت سے کیڑوں اور مکڑیوں کو فرش پر گرا دیا۔
ان کی گنتی کی گئی تو سائنسدانوں نے یہ گنا کہ گرنے والوں میں 257 انواع سے تعلق رکھنے والے 2041 جاندار تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت میں روشنی اور نمی کے حساب سے کئی قسم کے ماحول ہیں۔ جہاں پر درخت کا تنا دو شاخہ ہوتا ہے، وہاں پر بارش کا پانی اکٹھا ہو جاتا ہے۔ یہاں پر جمع ہونے والے ننھے سے تالاب چھوٹی مکھیوں کا گھر بن جاتے ہیں جو نایاب قسم کے بیٹل کی خوراک ہیں۔ درخت میں موجود سوراخ، جہاں پانی اکٹھا ہو، تاریک ہیں جہاں پر آکسیجن کی کمی ہے۔ یہاں پر bumblebee کے لاوا پلتے ہیں۔ ان کی سانس لینے کے لئے ٹیلی سکوپ کی طرح کی نالی ہے۔ یہاں کسی اور کا رہنا مشکل ہوتا ہے تو یہ اپنی اس نالی کی وجہ سے آرام سے رہ سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر پائے جانے والے بیکٹیریا لاروا کی خوراک بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر درخت رفتہ رفتہ موت کا شکار نہیں ہوتا۔ کئی کی موت فٹا فٹ آ جاتی ہے۔ طوفان کسی کو توڑ دیتا ہے یا چھال والے بیٹل چند ہفتے میں چھال اتار کر اسے ادھ موا کر سکتے ہیں۔
جب ایسا واقعہ ہو تو درخت کے اردگرد کا پورا ایکوسسٹم اچانک بدل جاتا ہے۔ ایسے جاندار جن کا انحصار درخت کی فراہم کردہ نمی یا شوگر پر تھا، انہیں درخت کی لاش کو چھوڑ دینا ہے یا پھر یہ فاقے کا شکار ہو جائیں گے۔
ایک دنیا ختم ہونے لگتی ہے۔ ایک اور دنیا شروع ہونے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت کا مردہ تنا جنگل میں زندگی کے چکر کے لئے اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا زندہ تنا تھا۔ صدیوں سے اس نے زمین سے غذائیت چوس کر اپنی چھال اور لکڑی میں ذخیرہ کی تھی۔ اب یہ اس کے بچوں کے لئے اہم ریسورس ہیں۔ لیکن اس کے بچوں تک یہ وراثت براہ راست نہیں پہنچے گی۔ اس تک رسائی لینے کے لئے درمیان میں کئی جانداروں کی مدد کی ضرورت ہو گی۔
جیسے ہی درخت زمین پر گرا، یہ اپنے جڑوں کے نظام کے سمیت ہزاروں کیڑوں اور فنگس کے لئے خوراک کی دوڑ کی جگہ بن گیا۔ گلنے سڑنے کے عمل میں ہر ایک کا اپنا حصہ ہے۔ انہیں زندہ درخت میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس سب میں وقت لگے گا۔
ان میں سے ایک stag beetle ہے۔ اس کی چند ہفتوں کی زندگی ہوتی ہے جس میں اس نے اگلی نسل شروع کرنا ہوتی ہے۔ لیکن اس کے لاروا کی عمر طویل ہے۔ پت جھڑ کے مردہ درختوں کی شکستہ ہونے والے جڑوں پر یہ گزارا کرتا ہے اور آٹھ سال تک اسی حالت میں گزارتا ہے۔ اسی طرح بریکٹ فنگس سست رفتاری سے اپنا کام کرتی ہے۔
ایک اور مثال ریڈ بیلٹ کونک کی ہے۔ یہ لکڑی کے سیلولوز کے سفید ریشے کھاتا ہے۔ خود کو سونڈ کی مدد سے درخت سے چپکا لیتا ہے۔
کچھ فنگس درخت پر اپنی جگہ حاصل کرنے کے لئے سخت لڑائی کرتے ہیں۔ مردہ لکڑی سے گرنے والے برادے میں یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں گہرے اور ہلکے رنگوں کے الگ شیڈ یہ بتاتے ہیں کہ فنگس کی الگ انواع ان پر کام کر رہی تھیں۔ یہ اپنا علاقہ الگ کرنے کے لئے گہرے رنگ کے پولیمر کے ذریعے دیوار بناتے ہیں جن سے دوسرے گزر نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ملا کر چھ ہزار ایسی انواع ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا انحصار مردہ لکڑی پر ہے۔ مردہ لکڑی اس لئے مفید ہے کہ یہ غذائیت ری سائیکل کرتی ہے۔
زندہ درخت ان انواع کے لئے زیادہ سخت، میٹھا اور نم ہوتا ہے کہ یہ اس میں رہ سکیں۔ صحتمند درخت اپنے پر ہونے والے تمام قدرتی حملوں کے خلاف اچھا دفاع کر لیتے ہیں۔ ڈی کمپوز کرنے والے چھوٹے جانداروں کی اس فوج کے لئے یہ اچھی جگہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار مردہ لکڑی درختوں کے لئے براہ راست مفید ہوتی ہے۔ خاص طور پر سپروس کے درخت اپنے مردہ والدین کے جسم سے پھوٹتے ہیں۔ اس کا تنا ان کے لئے پنگھوڑے کا کام کرتا ہے۔ مردہ تنے کی کوکھ سے شروع ہونے والی اس زندگی کو جرمن میں Kadaververjungung (لاش کی واپسی) کہا جاتا ہے۔ نرم اور گلی ہوئی لکڑی پانی کو اچھی طرح سنبھال لیتی ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ مر جانے والا درخت گلتا سڑتا ہوا مٹی میں ملکر مٹی ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر اگنے والا درخت اپنی جڑیں مٹی میں گاڑ چکا ہوتا ہے۔ نوجوان سپروس جنگل کے فرش پر پروان چڑھتا رہتا ہے۔ جو درخت اس طریقے سے بڑھتے ہیں، وہ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی پاؤں اٹھا کر کھڑے ہیں جس کی اونچائی اتنی ہوتی ہے جتنی اس تنے کی موٹائی جس نے ان کی پرورش کی تھی۔
(جاری ہے)