بڑے درخت رہنے کی اچھی جگہیں ہیں۔ اگرچہ درخت یہ کام رضاکارانہ طور پر نہیں کرتے لیکن ابابیل، چمگادڑ، ہدہد وغیرہ کو پرانے درختوں کے موٹے تنوں ک...
بڑے درخت رہنے کی اچھی جگہیں ہیں۔ اگرچہ درخت یہ کام رضاکارانہ طور پر نہیں کرتے لیکن ابابیل، چمگادڑ، ہدہد وغیرہ کو پرانے درختوں کے موٹے تنوں کو پسند کرتے ہیں۔ ایسے تنے سردی اور گرمی سے اچھا بچاؤ دیتے ہیں۔
یورپ کے جنگل ہدہد نے درخت کے تنے میں سوراخ بنایا جو ایک سے دو انچ گہرا تھا۔ ہدہد کو ایسی جگہ چاہیے جو کہ ٹھوس اور پائیدار ہو۔ لیکن یہ پورا گھر ایک ہی وقت میں بنانا بہت محنت طلب ہے۔ اس وجہ سے اس پہلے کام کے بعد انہوں نے کچھ مہینے کا وقفہ لیا۔ اسے امید ہے کہ فنگس اس کی مدد کر دے گا۔
فنگس درخت کی چھال کو پار نہیں کر سکتی تھی۔ ہدہد نے اس چھال کو کاٹ کر اسے موقع فراہم کر دیا ہے۔ فنگس پہنچ گئی۔ اس نے لکڑی کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہدہد کے لئے یہ محنت کی تقسیم ہے۔ کچھ وقت میں درخت کے ریشے نرم پڑ چکے ہیں اور اب ہدہد اس سوراخ کو آسانی سے بڑا کر سکتا ہے۔ یہ اس میں جٹ گیا۔
وہ دن آ گیا جب تعمیر کا کام مکمل ہوا اور اب جگہ تیار ہے۔کوے کے سائز کا سیاہ ہدہد کئی سوراخ بنائے گا۔ ایک بچوں کے لئے، ایک سونے کے لئے اور ایک منظر کی تبدیلی کے لئے۔ ہر سال اس کی مرمت کی جائے گی۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ فنگس نے اپنا ڈیرہ بنا لیا ہے۔ ہر سال جب ہدہد اس کی صفائی کرتا ہے تو یہ سوراخ زیادہ بڑا ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ ضرورت سے زیادہ بزا ہو جائے گا۔ ہدہد کے بچے کو اس پر چڑھ کر اپنی پہلے پرواز لینا ہے۔ اگر یہ زیادہ گہرا ہو جائے تو ان کے لئے یہ مفید نہیں رہے گا اور اب اس میں نئے رہائشیوں کے آنے کا وقت ہے۔
نئے رہائشی وہ انواع ہیں جو خود لکڑی کو نہیں کھود سکتے۔ ان میں nuthatch ہے۔ ہدہد کی طرح کا، لیکن اس سے بہت چھوٹا پرندہ پہنچ گیا ہے۔ ہدہد کی طرح یہ مردہ لکڑی پر پھدکتا رہتا ہے اور اس سے بیٹل کے لاروا کو نکال کر کھاتا ہے۔ اسے ہدہد کے چھوڑے ہوئے گھر بہت پسند ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے۔ اس گھر کے داخلے کا راستہ اس کی ضرورت سے بہت بڑا ہے اور یہاں سے شکاری آ سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے یہ گارے کی مدد سے اسے چھوٹا کر دے گا۔ اور یہ بہت صفائی اور مہارت سے کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت اپنے رہائشیوں کو ایک اور خدمت مہیا کرتے ہیں۔ لکڑی کے ریشے آواز کے اچھے موصل ہیں۔ (اسی وجہ سے گٹاور اور وائلن ان سے بنتے ہیں)۔ پرندے لکڑی کی اس خاصیت کو الارم سسٹم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ گلہری یا ابابیل کے پنجوں کی آواز سن لیتے ہیں۔ اور انہیں بھاگنے کا موقع مل جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چمگادڑ کی کچھ انواع کو بھی ایک وقت میں کئی سوراخ درکار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ان میں پال سکیں۔ مغربی ایشیا میں رہنے والے بیکسٹائین چمگادڑ کی مادہ گروپ کی صورت میں بچوں کی اکٹھی پرورش کرتی ہیں۔ اور ایک گھر میں صرف چند دن گزارتی ہیں اور پھر آگے چلے جاتی ہیں۔ اس کی وجہ طفیلی کیڑے ہیں۔ اگر یہ تمام سیزن ایک ہی جگہ گزار دیں تو ان کیڑوں کی آبادی کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے یہ پھنس جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الو بڑے ہیں اور ہدہد کی بنائی جگہ میں پورے نہیں آتے۔ لیکن جب اس کو چند سال گزر جائیں تو درخت کا یہ حصہ گلتے ہوئے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ تنا چٹخ کر بڑا سوراخ دے دیتا ہے۔ یا پھر الگ سوراخ آپس میں مل جاتے ہیں اور الو کو اپنے دوستوں سمیت یہاں بسیرا مل جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور درخت؟ اس کی خود کو بچانے کی کوشش ناکام رہی ہے۔ فنگس سے تو نہیں بچ پاتا لیکن اس کے پاس بھی حربے ہیں تا کہ یہ اپنے زخموں کا مقابلہ کر سکے۔ اگر یہ ایسا کر لیتا ہے تو یہ باہر سے اتنا مضبوط رہے گا جیسے کوئی کھوکھلا پائپ۔ اور اسی طرح سے سو سال گزار لے گا۔ آپ درخت کی طرف سے مرمت کی یہ کوششیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہدہد کے سوراخ کے کناروں پر لکڑی کے ابھار اس سوراخ کو بند کرنے کی کوششیں ہیں۔ اس میں کامیابی نہیں ہوتی اور ہدہد نئی لکڑی کو بھی کھود ڈالتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تنا اب قسم قسم کے جانداروں کا بسیرا بن گیا ہے۔ لکڑی پر رہنے والی چیونٹیاں آ گئی ہیں۔ یہ پھپھوندی لگی لکڑی کو چبا کر کاغذ جیسے گھر بنائیں گی۔ انہوں نے اپنے گھر کی دیواروں کو honeydew میں ڈبو دیا ہے۔ یہ شیرا ایفیڈ سے حاصل کیا گیا ہے اور فنگس کو پسند ہے۔ فنگس کے ریشوں سے ان کا گھر مستحکم رہے گا۔ کئی اقسام کے بیٹل اس طرف آ گئے ہیں۔ ان کے لاروا چند سالوں میں ڈویلپ ہوں گے۔ اس لئے انہیں طویل مدت رہنے کی جگہ چاہیے۔ اور وجہ سے یہ ایسے درختوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور بیٹل کے لاروا کی موجودگی دوسرے کیڑوں اور فنگس کے لئے پرکشش ہے۔ اور ان کے کاموں کی وجہ سے لکڑی کا برادہ گرتا رہے گا۔
الو، چمگادڑ اور گلہری کا فضلہ تاریک گہرائی میں گرتا رہتا ہے۔ اور یہ کئی انواع کے لئے غذائیت کی مسلسل سپلائی ہے۔ ان میں سے سے ایک ہرمٹ بیٹل ہے۔ یہ بڑا سیاہ بیٹل ہے جو ڈیڑھ انچ لمبا ہے۔ اور اس کی ترجیح یہ ہے کہ تمام عمر تاریک سوراخ کی تہہ میں گزار دے۔ چونکہ یہ اڑتا یا چلتا بہت ہی کم ہے تو ایک فیملی کی کئی نسلوں دہائیوں تک ایک ہی درخت میں زندگی بسر کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن درخت کا وقت ختم ہوا۔ طوفان آیا جس نے درخت کو توڑ دیا۔ لیکن کمیونٹی جاری رہی۔ اگرچہ سائنسدان یہاں پر جانداروں کے تعلقات کی مکمل تفتیش تو نہیں کر پائے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ انواع کا تنوع جنگل کے ایکوسسٹم کو استحکام دیتا ہے۔ جتنی متفرق انواع ہوں، اتنا کم امکان ہے کہ کوئی ایک غالب آ جائے۔ کیونکہ ایسا ہونا ہر ایک کے لئے برا ہے۔
مر کر گر جانے والا درخت بھی بہت سی زندگیوں کو جاری رکھنے میں اور انہیں رہائش دینے میں مددگار ہو گا۔
(جاری ہے)