کوئی بھی ایکوسسٹم ایک باریک توازن میں ہے۔ اکثر ایسے کہا جاتا ہے کہ اس کا ہر ممبر اس کی بہتری کے لئے اپنا اپنا کام کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا...
کوئی بھی ایکوسسٹم ایک باریک توازن میں ہے۔ اکثر ایسے کہا جاتا ہے کہ اس کا ہر ممبر اس کی بہتری کے لئے اپنا اپنا کام کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں۔ یہ توازن کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اپنے زندہ رہنے کی کشمکش کا۔ کوئی بھی جاندار اگر ضرورت سے زیادہ لالچ کرے گا اور دینے پر نہیں، صرف لینے پر زور رکھے گا تو زندہ نہیں رہے گا۔ یہ توازن اس میں ہر شریک جاندار کی جینات میں لکھا ہے۔
بڑے اور تاریک جنگل میں ہر طرح کی خوراک بکھری پڑی ہے۔ صرف ایک درخت کئی ملین کیلوریز شوگر، سیلولوز، لگنن اور دوسرے کاربوہائیڈریٹس کی شکل میں رکھتا ہے۔ لیکن اس کا دروازہ بند ہے۔ موٹی چھال کے پیچھے چھپے اس میٹھے خزانے تک پہنچنے کے لئے کوئی پلان چاہیے۔
ایک ہدہد آیا۔ اس کے پاس ایک خاص سٹرکچر ہے جس کی وجہ سے اس کی چونچ میں لچک ہے اور سر کے پٹھے امپیکٹ برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ اس کی چھال پر مسلسل کسی ڈرل کی طرح حملے کرتا ہے مگر اس کو سردرد نہیں ہوتا۔ بہار میں جب پانی درخت کے اوپر کی طرف جا رہا ہے، نئے پتے کھل رہے ہیں، درخت مزیدار خوراک ان تک پہنچا رہا ہے۔ ہدہد کی کچھ انواع پتلی ٹہنیوں پر ایک لکیر کی صورت میں چھوٹے سوراخ کرتی جائیں گی۔ درخت کے زخموں سے رس بہنا شروع کر دے گا۔ یہ رس بہنا درخت کے لئے اچھا نہیں لیکن ہدہد اسی کے پیچھے آیا تھا۔ درخت اتنے زخم آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔ یہ زخم بند ہو جاتے ہیں۔ اپنے نشان ایسے چھوڑ جاتے ہیں جیسے کسی نے جان کر نقوش کھدوائے ہوں۔
سبز رنگ کے ایفڈ جنہوں درخت کی جوئیں بھی کہا جاتا ہے، ہدہد جتنی محنت نہیں کرتیں۔ اڑ کر، جگہ ڈھونڈ کر اور ٹہنیوں میں سوراخ کرنے کے بجائے یہ پتوں کی رگوں کے ساتھ اپنا منہ لگا لیتی ہیں اور وہاں سے رس چوستی ہیں۔ درخت کا “خون” ان ننھے کیڑوں میں جانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ غذائیت والا نہیں ہے، اس میں پروٹین انتہائی کم مقدار میں ہے جو ان کو بڑھنے کے لئے درکار ہے۔ ان ایفڈز کو باقی غذائیت ان کے جسم کے جراثیم بنا دیں گے۔ لیکن ایفڈ اپنی ضرورت سے بہت زیادہ رس پیتے جائیں گے اور ساتھ ساتھ نکالتے جائیں گے۔ یہ اس میں سے شوگر اور کاربوہائیڈریٹ کو چھیڑیں گے بھی نہیں۔ ہر قسم کے درخت سے اس طرح رس چوسنے والے کیڑے مختلف ہیں،۔
پتوں کی جگہ ان ایفڈز نے سنبھال لی جبکہ کچھ اور انواع درخت کی خوراک تک پہنچنے کیلئے چھال میں سے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اونی بیچ سکیل درخت کے تنے کو اپنی سفید اون سے بھر دے گا۔ یہ درخت کی چھال کو زخمی کرنے کا طریقہ ہے، جن سے درخت کو سنبھلنے میں وقت لگتا ہے۔ کئی بار فنگس اور بیکٹیریا ان زخموں کے ذریعے درخت تک پہنچ کر کمزور کر دیں گے۔ یہ حملے کئی کمزور درختوں کو مار دیتے ہیں۔
درخت کو اپنے بچاوٗ کی ضرورت ہے۔ یہ دفاعی کیمیکلز سے ایسا کرتا ہے۔ اپنی باہری چھال کو مرمت کرتا ہے۔ موٹی چھال کئی برس تک اسے حفاظت دے سکتی ہے۔ اس کے پتوں پر لگی جوئیں اس کی غذائیت بڑی مقدار میں اس سے نکال سکتی ہیں۔ فی مربع گز، سینکڑوں ٹن شوگر لے کر جا سکتی ہیں۔ یہ وہ شوگر ہے جو درخت نے اپنے بڑھنے میں یا آئندہ آنے والے برے وقت کے لئے رکھی تھی۔ درخت کو اس ضیاع کا نقصان پورا کرنے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑے گی۔
لیکن کئی جانوروں کے لئے یہ طفیلی کیڑے رحمت ہیں۔ لیڈی بگز کے لاروا کی یہ خوراک ہیں۔ جنگلی چیونٹیاں ان کے نکالے گئے میٹھے مادے کو پسند کرتی ہیں اور ان کا چوسنے کا عمل تیز کرنے کے لئے اپنے اینٹینا سے ان کو تھپتھپاتی ہیں۔ اور ان کی حفاظت کرتی ہیں۔
جو چیونٹیاں استعمال نہیں کر پاتیں، وہ فنگس اور بیکٹیریا استعمال کر لیتے ہیں۔ ان انفیکٹ ہوئے درخت کے نیچے اپنے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ ان ایفڈ سے نکلتے میٹھے فضلے کو شہد کی کچھ مکھیاں بھی پسند کرتی ہیں۔ اس کو چوس لیتی ہیں اور اس سے سیاہ جنگلی شہد بناتی ہیں۔ یہ انتہائی مہنگا شہد بہت پسند کیا جاتا ہے۔ یہ پھولوں کے رس سے نہیں، ان جووٗں کے فضلے سے بنتا ہے۔
بھڑوں اور گال مڈ کا اپنا طریقہ ہے۔ یہ ان انفیکٹ ہوئے پتوں میں اپنے انڈے دے دیتے ہیں۔ جب ایفڈ ان میں سے رس چوس رہے ہوتے ہیں تو ان کے لعاب سے ان کے گرد حفاظتی تہہ بن جاتی ہے۔ پت جھڑ میں پتے گرتے ہیں تو یہ انڈے محفوظ طریقے سے نیچے آ جاتے ہیں۔
سنڈی کی الگ کہانی ہے۔ ان کی نظریں اس میٹھے رس پر نہیں بلکہ پورے پتے پر ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ زیادہ نہ ہوں تو درخت کو پتا بھی نہیں چلتا لیکن ان کی آبادی کبھی یکایک بہت بڑھ جاتی ہے اور درخت کو گنجا کر کے رکھ دیتی ہے۔ کئی مرتبہ درخت کے لئے واحد دفاع یہ ہوتا ہے کہ ان کے ختم ہونے کا انتظار کرے اور نئے پتے اگا لے۔ لیکن اگر ایک درخت کے ساتھ دو سے تین سال تک ایسا لگاتار ہو تو درخت مر سکتا ہے۔ درخت اس سے بچاوٗ کے لئے مدد بھی بلا لیتے ہیں۔ ایسے کیمیکل خارج کر کے جو ان سنڈیوں کو کھانے والوں کے لئے اشارہ ہوتا ہے۔ ان کی خوشبو سونگھ کر بھڑیں یا دوسرے شکاری ان سنڈیوں کو تلف کرنے آ جاتے ہیں۔ برڈ چیری کا درخت ایک اور حکمت عملی اپناتا ہے۔ یہ اپنے پھولوں میں چیونٹیوں کے لئے میٹھا رس رکھ دیتا ہے۔ اس میٹھے رس کے ساتھ والا پروٹین یہ سنڈی ہوتی ہے جسے چیونٹیاں کھا جاتی ہیں۔ کئی مرتبہ یہ حربہ الٹ بھی پڑ جاتا ہے کیونکہ یاد رہے کہ چیونٹیاں رس چوسنے والے ایفڈ کی دوست ہیں۔
اور پھر وہ چھال والا بیٹل جو درخت کا خوف ہے۔ یہ کچھ نہیں یا سب کچھ کی حکمت عملی کی تحت آتا ہے۔ اگر اس کے ہراول دستے کا حملہ کامیاب رہے اور یہ چھال تک پہنچ جائے تو یہ بڑی تعداد میں اپنے رشتہ داروں کو دعوت پر بلا لیتا ہے۔ یہ درخت کو مار سکتے ہیں یا پھر درخت ان کے ہراول دستے کو اپنے تک پہنچنے سے پہلے ہی مار دیتا ہے۔ ان کی نظریں چھال اور لکڑی کے درمیان پائے جانے والے کیم بئیم پر ہیں۔ یہ غذائیت سے بھرپور ہے اور نرم بھی۔ ایمرجنسی کی صورت میں انسان بھی اسے کھا سکتے ہیں۔ اس کا ذائقہ گاجر کی طرح کا ہے۔ چھال والے بیٹل نہ صرف اس کو کھاتے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں انڈے بھی دے جاتے ہیں۔ ان کے لاروا بھی موٹا تازہ ہو جانے تک اس کو کھاتے پیتے رہتے ہیں۔
ایک صحت مند درخت اپنا دفاع فینول اور ٹرپین کے کیمیکلز کی مدد سے کر لیتا ہے جو ان کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ اگر یہ کام نہ کرے تو اپنا رال گرانا شروع کر دیتے ہیں جو ان کو پھنسا کر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن ہتھیاروں کی اس دوڑ میں بیٹل بھی کم نہیں۔ سویڈن میں حالیہ تحقیق میں پتا لگا ہے کہ انہوں نے اپنا ہتھیار فنگس کی صورت میں ڈھونڈا ہے جو یہ اپنے جسموں میں لے کر آتے ہیں۔ یہ فنگس درخت کی کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ آگے آگے فنگس اور پیچھے پیچھے بیٹل۔ اس مشترک حملے سے صحت مند درخت بھی نہیں بچ پاتا۔
بڑے جرنے والے جانوروں کے اپنے طریقے ہیں۔ گھنے جنگل میں فرش تک دھوپ نہیں پہنچتی۔ یہ گھاس سے خالی ہوتا ہے۔ اونچے درختوں تک ان کا منہ نہیں پہنچتا۔ اس لئے ہرن جیسے جانور ان جگہوں میں کم ہی ہوتے ہیں۔ پت جھڑ میں جب روشنی نیچے تک پہنچتی ہے تو گھاس اور جنگلی پھول اگتے ہیں۔ اس نخلستان میں ان کا رش لگ جاتا ہے اور نیا سبزہ چر لیا جاتا ہے۔ بچے درخت جو ابھی اگ ہی رہے ہوتے ہیں، ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ درختوں اور ہرنوں کی اپنی ایک جنگ ہے جو کئی سال جاری رہتی ہے جب تک کہ ان کا قد اتنا نہ ہو جائے کہ یہ ان چرنے والوں سے محفوظ ہو جائیں۔ جو نئے درخت نہیں بچ سکیں گے، وہ گر کر مٹی میں مل جائیں گے۔
ایک اور خطرہ ہنی فنگس مشروم سے ہے۔ یہ معصوم لگنے والی رنگین کھمبی خزاں میں درخت کے تنے میں اگ آتی ہے اور ان کی جڑوں سے سفید رس چوس کر اپنے سیاہ دھاگوں میں انڈیل لیتی ہے۔ اس کے گرد تسمہ بنا کر اس کی لکڑی کو بھی گلا دیتی ہے۔ یہ بھی درخت کی زندگی کے لئے ایک اور چیلنج ہے۔
پھر ایک اور جھاڑی پائن سیپ۔ یہ سبز ہے ہی نہیں اور فوٹوسنتھیز نیہں کر سکتی۔ اس کا مطلب یہ کہ اس کو بھی غذائیت چاہیے۔ یہ درخت کے رابطے کروانے والے فنگس سے خوراک پر ڈاکہ ڈالتی ہے۔ وہ خوراک جو درخت آپس مین ایک دوسرے سے رابطہ کروانے کے انعام کے طور پر اسے دیتے ہیں۔
اور پھر وہ بارہ سنگھے، ہرن اور دوسرے جانور جو درختوں کو خارش کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کو ایسا درخت چاہیے جو اتنا مضبوط ہو کہ ان کا بوجھ سہار سکے لیکن کچھ لچکدار بھی ہو۔ یہ وہ درخت ہیں جو کچھ بڑھ تو گئے ہیں لیکن پرانے نہیں ہوئے۔ یہ جانور ان کو اس قدر برے طریقے سے استعمال کرتے ہیں کہ کئی درخت اس سے مر جاتے ہیں۔ یہ جانور عام طور پر ایسا درخت چنتے ہیں جو ذرا منفرد ہو۔ کیوں؟ پتا نہیں لیکن ہم انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ منفرد چیزیں ہمیں پسند آتی ہیں۔ ایک مرتبہ تنے کی موٹائی چار انچ تک پہنچ جائے تو پھر ان بارہ سنگھوں کے حملے سے بچ جاتے ہیں۔ ہرن وغیرہ میدانی علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ گھاس وہاں پر ہوتی ہے لیکن انسانوں کے خوف نے انہیں جنگلوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ گھاس کے بغیر جنگل میں بھوکا ہرن کئی بار سیدھا چھال کو کھانے کے لئے چن لیتا ہے۔
گرمیوں میں جب یہ درخت پانی سے بھرا ہوتا ہے تو اس کو اتنا فرق نہں پڑتا لیکن سردیوں میں خشک لکڑی کو کھانا نہ صرف درخت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ زندگی خطرے میں ڈال دیتا ہے کیونکہ اس موسم میں اس کے پاس فنگل انفیکشن سے بچنے کے لئے بھی ذرائع نہیں ہوتے۔ خاص طور پر مصنوعی جنگلوں میں تیزی سے اگنے والے درختوں کے تنوں میں موجود ہوا کا مطلب یہ کہ فنگس کو تیزی سے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے درخت کم عمر میں فوت ہو جاتے ہیں۔
جنگل کی زندگی کا توازن اس سب کش مکش کا ہے۔ زندگی کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔
(جاری ہے)