پانی جنگل تک پہنچتا کیسے ہے؟ بلکہ اس سے پیچھے سوال یہ کہ پانی زمین تک کیسے پہنچتا ہے۔ یہ سادہ سوال لگتا ہے لیکن یہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ گریوی...
پانی جنگل تک پہنچتا کیسے ہے؟ بلکہ اس سے پیچھے سوال یہ کہ پانی زمین تک کیسے پہنچتا ہے۔ یہ سادہ سوال لگتا ہے لیکن یہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ گریویٹی پانی کو کھینچ کر نشیب کے مقامات تک لے جاتی ہے۔ یعنی براعظموں کو خشک ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ کہ پانی کی سپلائی بادلوں کے ذریعے جاری رہتی ہے۔ یہ ہوا کے زور پر اڑتے ہوئے پانی کو سمندر سے لے کر خشکی تک پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہی واحد ذریعہ ہوتا تو پھر یہ ساحل سے 200 میل اندر تک تو کام کر سکتا ہے۔ ساحل سے جتنا دور جاتے جائیں گے، موسم اتنا خشک ہوتا جائے گا۔ اور چار سو میل سے آگے کا علاقہ صحرا ہو گا۔ زندگی صرف سمندروں کے قریب کے علاقے میں ممکن ہو گی۔ لیکن ایسا نہیں۔ اور اس کی وجہ درخت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتوں سے بھرا ہوا بڑے درخت بڑا سطحی رقبہ رکھتا ہے۔ ایک جنگل کے ہر مربع گز پر 27 مربع گز کا رقبہ پتوں کی سطح ہے۔ یہاں جب بارش کا قطرہ گرتا ہے تو اس کا ایک حصہ واپس بخارات بن کر واپس ہوا میں چلا جاتا ہے۔ گرمیوں میں درخت 8500 مکعب گز فی مربع میل پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہیں۔ اس سے نئے بادل بنتے ہیں جو کہ پانی کو مزید اندرونی علاقوں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ یہ سائیکل جاری رہتا ہے اور پانی کو مزید دور کے علاقوں تک لے جاتا ہے۔ قدرت کا یہ پمپ اس قدر زبردست کام کرتا ہے کہ ہزاروں میل اندر کے علاقوں میں زبردست بارشیں ہوتی ہیں۔
اس پمپ کے کام کرنے کے لئے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔ ساحلی جنگلات اس کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو پورا سسٹم بیٹھ جائے گا۔ روسی سائنسدان انسٹاسیا مکاریوا کی دنیا بھر کے جنگلات میں کی گئی تحقیق یہ نتیجہ دیتی ہے۔ خطِ استوا کے جنگل ہوں یا سائبیریا کے ٹیگا، زندگی بخشنے والی نمی کو اندرونی علاقوں تک لے جانے کا ذریعہ یہی جنگل ہیں۔ اور اگر ساحلی جنگل ختم ہو جائیں تو یہ ویسا ہے جیسے موٹر کے پمپ کا پلگ کھینچ لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمالی کرے میں کونیفر کے درخت ایک اور کام بھی کرتے ہیں۔ یہ ٹرپین خارج کرتے ہیں جس کا اصل کام بیماریوں اور طفیلی کیڑوں کے خلاف دفاع ہے۔ لیکن جب اس کے مالیکیول ہوا میں پہنچتے ہیں تو نمی ان پر جم جاتی ہے۔ اور یہ بادل کے بیج کا کام کرتے ہیں۔ ان کے اوپر بننے والے بادل جنگلات سے باہر بننے والے بادلوں سے دگنی موٹائی رکھتے ہیں۔ اور بارش کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اضافی بادل دھوپ کا پانچ فیصد منعکس کر دیتے ہیں۔ اس سے زمین ٹھنڈی رہتی ہے اور زمین پر نمی قید رہتی ہے۔ سرد اور نم زمین کونیفر کی پسندیدہ ہے۔ یہ درخت اور موسم کا تعلق ہے۔ جنگل کا ایکوسسٹم اس میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش اور جنگل کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔ ندیاں، تالاب اور جنگل ایک باہمی ربط والے نظام کا حصہ ہیں جو ان میں رہنے والوں کو بھی مناسب ماحول فراہم کرتے ہیں۔
جنگل کا فرش ایک دیوہیکل سپنج کا کام کرتا ہے جو بارش کا پانی اکٹھا کرتا ہے۔ درختوں کی وجہ سے فرش پر قطے زور سے نہیں گرتے۔ نرم مٹی اس سارے پانی کو جذب کر لیتی ہے۔ اور پانی بہہ نہیں جاتا بلکہ زمین میں دھنس جاتا ہے۔ اضافی نمی آہستہ آستہ اپنا راستہ نیچے سے نیچے کی تہوں کی طرف بناتی ہے۔ ایک بار اس میں چلے جانا والا پانی شاید دہائیوں تک دن کی روشنی دوبارہ نہ دیکھے۔ اور یہ خشک سالی کے وقت میں جنگل کا ذخیرہ ہے۔
اس میں سے آہستہ آہستہ رسنے والا پانی ندیوں کے راستے بنائے گا جہاں پر تازہ پانی کے کئی جانور رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم واپس پانی کے ذریعے کی طرف آتے ہیں جو کہ بارش ہے۔ بارش آپ کا موڈ خوشگوار کر سکتی ہے لیکن اگر آپ نے اس کے لئے مناسب لباس پہنا ہے۔ اگر آپ یورپ میں ہیں تو ایک میچور جنگل اس کے لئے بھی آپ کو بڑی خاص سروس دیتا ہے۔ مختصر وقت کی پیشگوئی کرنے والے پرندے chaffinches ہیں۔ ان کے نغمے کے بول “چپ چپ چپ چوئی چوئی چیو” کے ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت جب مطلع صاف ہو۔ اگر بارش کی آمد ہو تو یہ بول بدل جاتے ہیں اور بلند آواز میں run run run run کی آواز ہوتی ہے۔
(جاری ہے)