Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

درختوں کی زندگی (23) ۔ مٹی تلے

ہم، انسانوں کیلئے، مٹی پانی سے زیادہ پوشیدہ ہے۔ اس بات کو قبول کیا جاتا ہے کہ ہم سمندر کی تہہ کے بارے میں چاند کی سطح سے کم جانتے ہیں۔ اور ی...


ہم، انسانوں کیلئے، مٹی پانی سے زیادہ پوشیدہ ہے۔ اس بات کو قبول کیا جاتا ہے کہ ہم سمندر کی تہہ کے بارے میں چاند کی سطح سے کم جانتے ہیں۔ اور یہاں پر یہ بات درست ہے کہ ہم مٹی کے اندر کی زندگی کو اس سے بھی کم جانتے ہیں۔
یقینا، بہت سی انواع اور حقائق دریافت کیے جا چکے ہیں اور ہم ان کے بارے میں پڑھتے ہیں لیکن ہمارے قدموں تلے جاری زندگی کے پیچیدہ کھیل کا یہ چھوٹا حصہ ہے۔ ایک جنگل میں biomass کا نصف حصہ یہاں پر ہے۔ چونکہ یہ انواع چھوٹی ہیں اور ان کو ہم اسے دیکھ نہیں پاتے تو ہمیں بھیڑیے، ہدہد، مینڈک یا شہد کی مکھی کی طرح متوجہ نہیں کرتیں۔ لیکن درختوں کے لئے یہ مخلوقات بہت اہم ہیں۔ جنگل میں سے ہرن، سور، درندے یا زیادہ تر پرندے نکال لئے جائیں تب بھی اسے بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔ اگر یہ سب اچانک غائب ہو جائیں تو جنگل کا نظام ویسے ہی جاری رہے گا۔ لیکن مٹی تلے مخلوقات کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔
مٹی کی ایک مٹھی میں اتنی تعداد میں جاندار ہیں جو زمین پر انسانی آبادی سے زیادہ ہے۔  ایک چمچہ بھر مٹی میں فنگس کے میلوں کے تار ہیں۔
یہ مخلوقات مٹی کو تبدیل کرتی ہیں اور اسے درختوں کے لئے قیمتی بناتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان جانداروں کو دیکھنے سے پہلے ہم کچھ پیچھے چلتے ہیں کہ مٹی کیسے بنی۔ مٹی کے بغیر جنگل نہ ہوتے کیونکہ انہیں اپنی جڑیں گاڑنے کیلئے جگہ درکار ہے۔ ننگی چٹانیں ان کے لئے بے کار ہیں اور اگرچہ چھوٹے پتھر کچھ سپورٹ دے سکتے ہیں لیکن ٹھیک مقدار میں پانی اور خوراک نہیں۔
زمین کے برفانی دور میں ارضیاتی عوامل جاری تھے جو چٹانوں کو توڑ دیتے ہیں۔ گلیشیر اپنے سفر میں بوجھ تلے پتھروں کو پیس دیتے ہیں۔ یہ ریت اور دھول بن جاتی ہے۔ جب برف پیچھے ہٹی تو پانی ان کو بہا کر نشیب اور وادیوں کی طرف لے گیا۔ آندھیاں انہیں اڑا لے گئیں اور دسیوں فٹ موٹی تہیں لگا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بیکٹیریا، فنگس اور پودوں کی صورت میں تھی۔ جو کہ مر جانے کے بعد گل سڑ جاتے ہیں۔ ان سے کھاد بنتی ہے۔ ہزاروں سال میں ایسی تہوں میں درخت قدم جمانے لگے۔ اور ان کی موجودگی نے اس تہہ کو مزید بیش قیمت بنا دیا۔ درخت اپنی جڑوں کی مدد سے مٹی کو استحکام دیتے ہیں۔ اسے بارش اور آندھی میں اڑ جانے سے بچاتے ہیں۔ آوارہ کٹاؤ قصہ پارینہ ہوا۔ مٹی کی تہہ موٹی ہونے لگی۔ اور یہاں پر کوئلے کی ابتدا بھی ہوئی۔
اور جب ہم کٹاؤ کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ یہ جنگل کا سب سے خطرناک قدرتی دشمن ہے۔ جب انتہا ک
ے موسمی واقعات ہوتے ہیں اور پھر موسلادھار بارش برستی ہے تو جنگل کی مٹی تمام پانی جذب نہیں کر سکتی۔ اضافی پانی مٹی کی تہہ کے اوپر بہتا ہے۔ اپنے ساتھ مٹی کے چھوٹے ذرات بھی لے جاتا ہے۔ بارشوں کے دنوں میں صاف چشمے اس لئے گدلے ہو جاتے ہیں۔ ایک جنگل ایک سال میں 2900 ٹن فی مربع میل مٹی کھو سکتا ہے۔ اور موسمی عوامل کی وجہ سے اس کا واپس آنے والا حصہ اس سے دسواں حصہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلد یا بدیر صرف پتھر رہ جائیں گے۔ اور آج ہم کئی جگہ پر ایسے علاقے دیکھ سکتے ہیں جہاں پر صدیوں قبل کاشت ہوتی تھی اور آج بنجر ہیں۔ لیکن وہ جنگل جنہیں چھیڑا نہ گیا ہو، یہاں پر مٹی کا بہاؤ بہت ہی کم ہوتا ہے جو کہ صرف 1 سے 14 ٹن فی مربع میل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درختوں تلے مٹی کی تہہ ہر سال گہری تر اور زرخیز تر ہوتی جاتی ہے اور ان کے لئے حالات مزید بہتر ہوتے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)