برسوں پہلے کی بات ہے جب پرانے درختوں کے درمیان میں کچھ عجیب سے سبز پتھر نظر آئے۔ ان پر سے احتیاط سے کائی اتاری تو ان کے نیچے درخت کی چھال ت...
برسوں پہلے کی بات ہے جب پرانے درختوں کے درمیان میں کچھ عجیب سے سبز پتھر نظر آئے۔ ان پر سے احتیاط سے کائی اتاری تو ان کے نیچے درخت کی چھال تھی۔ یہ پتھر نہیں بلکہ پرانی لکڑی تھی۔ اس نم جگہ پر لکڑی چند سال میں گل سڑ جاتی ہے لیکن یہ بہت سخت تھی اور زمین پر مضبوطی سے جمی تھی۔
اپنی جیب سے چاقو نکال کر اسے چھیلا تو اندر سے سبز تہہ نکلی۔ سبز!! یہ رنگ صرف کلوروفل کا ہوتا ہے۔ وہ شے جو پتوں کو سبز کرتی ہے۔ اور اس کے علاوہ زندہ درختوں کے تنوں میں بھی اس کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا۔ یہ لکڑی زندہ تھی!
اب ان پتھروں کو غور سے دیکھا تو یہ ایک پیٹرن بنائے ہوئے تھے جو پانچ فٹ قطر کا دائرہ تھا۔
جس چیز کو میں نے اتفاقاً دریافت کیا تھا یہ ایک قدیم دیوہیکل درخت کے تنے کی باقیات تھیں۔ اس کے بیرونی دائرے پر کچھ نشانیاں رہ گئی تھیں جبکہ اس کا اندرونی حصہ مٹی میں مل چکا تھا۔
یہ واضح تھا کہ اس درخت کو چار سے پانچ سو سال قبل کاٹ دیا گیا تھا۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کا باقی حصہ اتنا زیادہ عرصہ زندگی سے چمٹا ہوا رہا ہے؟
زندہ خلیات کو خوراک درکار ہے جو کہ شوگر کی صورت میں ہوتی ہے۔ انہیں تنفس کرنا ہے، اپنا نظام جاری رکھنے کے لئے توانائی چاہیے۔ لیکن بغیر پتوں کے؟ ان کے بغیر فوٹو سنتھیسس نہیں ہو سکتا۔ یہ ناممکن ہے۔
ہمارے سیارے پر کوئی بھی وجود اتنی صدیوں کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔ درخت کی باقیات بھی نہیں۔ معاملہ کچھ اور تھا۔ اس کو مدد مل رہی تھی۔ لگتا تھا کہ اس کے پڑوسی درختوں سے اسے خوراک فراہم کی جا رہی تھی اور اس کا راستہ جڑوں سے تھا۔
سائنسدان یہ دریافت کر چکے ہیں کہ جڑوں کے سروں پر فنگس کے نیٹورک کے ذریعے درخت خوراک کا تبادلہ کرتے ہیں۔
میں اس کی مکمل تفتیش تو نہیں کر سکتا تھا اور یہاں پر کھدائی کرنا اسے زخمی کر دیتا۔ لیکن میرے لئے یہ واضح تھا کہ اس کے پڑوسی اس کو زندہ رکھنے کیلئے اسے شوگر کی رسد پہنچا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ ڈھلوان پر اگے درختوں کا مشاہدہ کریں تو شاید یہ دیکھ پائیں کہ درخت ایک دوسرے سے کیسے ملے ہوتے ہیں۔ ڈھلوان پر جب بارش مٹی بہا لے جائے تو ان کی جڑوں کے زیرِزمین نیٹورک عیاں ہو جاتے ہیں۔
کوہِ ہارز میں تحقیق کرنے والے سائنسدان یہ دریافت کر چکے ہیں کہ یہ باہمی انحصار کا کھیل ہے۔ اور ایک نوع کے درخت اپنی جڑوں کے سسٹم کے ذریعے منسلک رہتے ہیں۔
خوراک کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت، ہمسائیوں کی مدد کا اصول ہے۔ اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ جنگل اپنی اصل میں سپرآگنزم ہیں۔ ویسے جیسے چیونٹیوں کی کالونی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اچھا سوال ہو گا کہ آیا ایسا تو نہیں کہ درختوں کی جڑیں بڑھتے ہوئے اپنی بے مقصد آوارہ گردی میں ایک دوسرے سے الجھ کر مل جاتی ہیں۔ اور اندھے بہرے پراسس میں خوراک کا تبادلہ ہو جاتا ہے؟
اور یہ صرف حادثاتی اور اتفاقی ہے؟ نہ کہ ایک سماجی نیٹورک۔ یہ ایک دوسری کی متحرک، فعال اور “جذباتی” مدد نہیں ہے۔ لیکن قدرت کا نظام ایسا نہیں۔ یہ زیادہ پیچیدہ ہے۔
ٹیورن یونیورسٹی کے ماسیمو مافائی کی تحقیق بتاتی ہے کہ درخت یہ پہچان رکھتے ہیں کہ کونسی جڑیں ان کی اپنی ہیں، کونسی دوسری انواع کی اور کونسی ان کے “رشتہ داروں” کی ہیں۔
(جاری ہے)