پانی مٹی سے اٹھ کر درخت کے پتوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ میری نظر میں اس سوال کا جواب جنگلات کے بارے میں ہماری موجودہ اپروچ کو واضح کر دیتا ہے۔ پا...
پانی مٹی سے اٹھ کر درخت کے پتوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ میری نظر میں اس سوال کا جواب جنگلات کے بارے میں ہماری موجودہ اپروچ کو واضح کر دیتا ہے۔
پانی کی ترسیل تحقیق کے لئے نسبتا سادہ معاملہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس بات پر یونیورسٹیوں کے پروفیسر دہائیوں سے سادہ وضاحتیں دے رہے ہیں جو غیردلچسپ ہیں اور ٹھیک نہیں۔ مقبول جواب یہ ہیں کہ capillary action اور transpiration اس کی وجہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیپلری ایکشن وہ عمل ہے جس سے مائع تنگ نالی میں گریویٹی کے خلاف اوپر اٹھ جاتا ہے۔ اگر آپ فرش پر گرے پانی پر تولیہ رکھتے ہیں تو اس کے پانی چوس جانے کی وجہ اس میں موجود باریک نالیاں ہیں جو پانی کو اٹھا لیتی ہیں۔ جتنی باریک یہ نالیاں ہوں، پانی اتنا ہی اوپر جا سکتا ہے۔ اور درختوں میں یہ بہت ہی باریک ہوتی ہیں۔ صنوبر کے درخت میں ان کا قطر 0.0008 انچ ہو سکتا ہے۔
لیکن نالیوں کی یہ تنگی اس کیلئے کافی نہیں کہ پانی 300 فٹ اونچے درخت کے بالائی حصے تک پہنچ جائے۔ تنگ ترین نالی میں اس عمل سے پانی تین فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔
ہمارے پاس ایک اور امیدوار ہے جو کہ ٹرانسپائریشن ہے۔ پتے بخارات بنا کر نکال رہے ہوتی ہیں۔ ایک بڑے بیچ کے درخت میں ایک روز میں سینکڑوں گیلن تک ہو سکتا ہے۔ اور اس کو نکالنے سے چوس لینے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس وجہ سے پانی کی مسلسل سپلائی کا راستہ بن جاتا ہے۔ چوسنے کی قوت اس وقت تک جاری رہ سکتی ہے جب پانی کا کالم مسلسل ہو۔ پانی کے مالیکیول کی بانڈنگ فورس ایک دوسرے سے چپکا لیتی ہیں اور زنجیر میں بندھے مالیکیول اوپر کی طرف پتے میں خالی جگہ لینے کیلئے چڑھتے رہتے ہیں۔
لیکن یہ بھی کافی نہیں ہے۔ Osmosis کا بھی کردار ہے۔ جب ایک خلیے میں شوگر کی کثافت اپنے ہمسائے سے زیادہ ہو تو پانی خلیاتی دیوار کے ذریعے زیادہ شوگر کی طرف بہتا ہے۔ اس وقت تک جب تک دونوں میں یہ شرح برابر نہ ہو جائے۔ اور جب یہ جڑ سے سر تک ہوتا جاتا ہے تو پانی اوپر تک پہنچ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ درختوں میں پانی کے پریشر کی پیمائش کرتے ہیں، تو آپ کو پتا لگتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب بہار میں پتے کھلنے کے قریب ہوتے ہیں۔ سال کے اس وقت میں پانی اس قدر قوت سے تنے سے اوپر جاتا ہے کہ اگر آپ اس پر سٹیتھوسکوپ لگائیں تو اس کو سن سکتے ہیں۔
شمالی امریکہ اور کینیڈا میں لوگ اس چیز کو استعمال کرتے ہیں اور میپل سے رس نکالتے ہیں۔ یہ کام اس وقت کیا جاتا ہے جب برف پگھل رہی ہوتی ہے۔ اور یہ سال کا واحد وقت ہے جب اس رس کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سال کے اس وقت میں پتے جھڑنے والے درختوں میں کوئی پتے نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ کہ ٹرانسپائریشن نہیں ہو سکتی۔ اور کیپلری ایکشن صرف جزوی شرکت کر سکتا ہے۔ تین فٹ کی بلندی پر پانی کو اٹھانا ناقابلِ ذکر ہے۔
لیکن یہی وہ وقت ہے جب تنے میں پانی اٹھ رہا ہوتا ہے۔ واحد وجہ اوسموسس رہ جاتی ہے لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں لگتی۔ کیونکہ یہ جڑوں اور پتوں میں تو کام کر سکتی ہے، لیکن تنے میں نہیں۔ کیونکہ یہاں پر ایک دوسرے سے جڑے خلیات نہیں بلکہ لمبی اور مسلسل نالیاں ہیں جو پانی لے جانے کیلئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اب ہمارے پاس کیا جواب بچا ہے؟
ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن نئی تحقیق سے یہ دریافت ہوتا ہے کہ روایتی وضاحتیں ٹھیک نہیں ہیں۔
تین الگ اداروں کے سائنسدان اسے قریب سے سن رہے ہیں۔ وہ درختوں میں نرم گنگناہٹ محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور پر رات کو۔ یہ وہ وقت ہے جب درخت فوٹوسنتھسس سے فارغ ہیں اور اس وقت ٹرانسپائریشن نہیں ہو رہی۔ درخت اس وقت میں اتنا پانی پمپ کر رہے ہیں کہ تنے کا قطر کئی بار زیادہ ہو جاتا ہے۔
پانی اس وقت اندرونی نالیوں میں ساکن ہے تو آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ محققین کا خیال ہے کہ یہ تنگ نالیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بلبلے ہیں۔ نالی میں بلبلے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پانی کے مسلسل کالم میں ہزاروں بار خلل پڑتا ہے۔اور اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ ٹرانسپائریشن جواب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس بظاہر سادہ سوالات کے جواب بھی نہیں ہیں۔
کیا ممکنہ وضاحت کا غلط ہو جانا افسوسناک ہے یا کیا نئے اسرار میں اضافہ ہو جانا خوش کُن؟ معلوم نہیں لیکن کیا دونوں ہی برابر کے دلچسپ نہیں؟
(جاری ہے)