ہم اب جانتے ہیں کہ درخت سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی بار سائنسدان اس بات کو قبول کرنے میں تامل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چیزوں...
ہم اب جانتے ہیں کہ درخت سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی بار سائنسدان اس بات کو قبول کرنے میں تامل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو اپنے عکس میں دیکھتے ہیں۔ اور ایسا سمجھ لیتے ہیں کہ یادداشت کیلئے “دماغ” کا ہونا لازم ہے۔
اس پر ایک تحقیق ڈاکٹر گاگلیانو نے چھوئی موئی کے پودوں پر تحقیق کی۔ چونکہ یہ حساس ہیں اور جلد ردعمل دیتے ہیں تو تحقیق کے لئے اچھے ہیں۔ جب انہیں چھوا جاتا ہے تو یہ خود کو بچانے کیلئے پتے بند کر لیتے ہیں۔
گاگلیانو نے تجربہ ڈیزائن کیا جس میں ان پر پانی کے چھینٹے وقفے وقفے سے چھڑکے گئے۔ شروع میں انہوں نے جھٹ سے پتے بند کر لئے۔۔ لیکن کچھ وقت کے بعد انہوں نے سیکھ لیا کہ اس میں خطرہ نہیں ہے۔ اور چھینٹوں میں بھی کھلے رہے۔ اس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کئی ہفتوں کے بعد دہرائے گئے تجربے میں بھی انہیں اپنا سیکھا گیا سبق یاد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تجربہ انہیں گرانے کا کیا گیا۔ چھوئی موئی کا پودا خطرے میں اپنے پتے بند کر لیتا ہے۔ ایک اپریٹس میں رکھے پودوں کو اچانک ایک فٹ نیچے گرایا گیا۔ اس سے اس پودے کو کوئی فزیکل نقصان نہیں پہنچتا لیکن اس گرنے کے عمل میں اس نے اپنے پتے فورا بند کر لیے۔ ایسا پانچ یا چھ بار کرنے سے اس نے اپنے پتے بند کرنے روک دئے۔ ایک ہفتے یا ایک مہینے بعد بھی ایسا کرنے سے ان پودوں میں جو سیکھ چکے تھے کہ ایسا ہونا بے ضرر ہے، انہوں نے اپنے پتے بند نہیں کئے لیکن یہ پودے دوسرے سٹیمولس پر اپنے پتے بند کر لیتے تھے۔ ان پودوں کی یادداشت کا دورانیہ بہت سے جانوروں سے زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بڑے درختوں کو تو لیبارٹری میں نہیں لے جا سکتے لیکن جہاں تک پانی کے استعمال کا تعلق ہے تو اس پر تحقیق دلچسپ حقائق عیاں کرتی ہے۔
جب درخت بہت پیاسے ہوتے ہیں تو یہ چیخنے لگتے ہیں۔ اگر آپ جنگل میں ہیں تو اسے نہیں سن سکیں گے۔ کیونکہ یہ الٹرسونک ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے فیڈرل تحقیاتی ادارے کے سائنسدانوں نے اس کو ریکارڈ کیا ہے اور وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں۔
یہ تھرتھراہٹ تنے میں ہوتی ہے جب پتوں تک پانی کی ترسیل میں خلل آ جائے۔ یہ مکینیکل چیز ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی مطلب نہ ہو۔
ہم جانتے ہیں کہ آواز کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر ہم خوردبین سے اس کا جائزہ لیں کہ انسان آواز کیسے پیدا کرتے ہیں تو یہ بھی مکینیکل ہے۔ اس حوالے سے اس میں فرق نہیں۔ ہوا کی نالی ہمارے صوتی ریشے ہوا کے دباؤ سے تھرتھراتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں اس تحقیق کے نتائج پر غور کرتا ہوں اور اسے جڑوں میں ہونے والی کڑکڑاہٹ (جس کا ذکر پہلے آ چکا) کے ساتھ ملا کر دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بے معنی تھرتھراہٹ شاید نہ ہو۔ یہ پیاس میں پکار ہو۔ درخت اپنے ساتھیوں کو خبردار کر رہا ہو کہ پانی کم ہو رہا ہے۔
(جاری ہے)