Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (9) ۔ برطانیہ ۔ جزیرہ

برطانیہ کئی صدیوں تک سپرپاور رہا۔ اس کی سلطنت کے قبضے میں ایک چوتھائی دنیا تھی۔ 2016 میں یورپی یونین چھوڑ دینے کے بعد یہ نئے اتحاد ڈھونڈ رہا...


برطانیہ کئی صدیوں تک سپرپاور رہا۔ اس کی سلطنت کے قبضے میں ایک چوتھائی دنیا تھی۔ 2016 میں یورپی یونین چھوڑ دینے کے بعد یہ نئے اتحاد ڈھونڈ رہا ہے۔ جبکہ یہ انیسویں صدی کے وسط سے اپنے لئے عالمی کردار تلاش کر رہا ہے۔ عظمتِ رفتہ اس کے لئے اب ماضی کی یاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کا بڑا عرصہ شمالی یورپی میدانوں کے مغرب میں برطانیہ ایک پسماندہ اور سرد جگہ رہی تھی۔ لیکن یہ دنیا کی عظیم ترین سلطنت کا مرکز بنا۔ کیسے؟ اس کے جواب کا جزوی حصہ اس کا جغرافیہ ہے۔ خاص طور پر اس کی سمندروں تک رسائی اس کا جواب دیتی ہے۔
برطانیہ کے گرد سمندر اس کے کلچر اور قومی نفسیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سمندر نے اسے یورپی میدانوں کی سیاست اور جنگوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس کا یورپ سے تعلق اتنا مضبوط نہیں رہا۔ علیحدگی کی نفسیات کا اثر ہوتا ہے اور یورپی یونین سے الگ ہونے کے ووٹ میں اس کا بھی ایک حصہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں تعلیم، ایجادات اور تجارت کی مہارت کی طویل تاریخ ہے اور اس وجہ سے یہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں رہنے کے لئے اسے مستقبل میں بدلتی دنیا میں ٹھیک فیصلے لینے ہوں گے۔ اور اسے اندرونی اتحاد کی ضرورت بھی پڑے گی۔  
برطانیہ کی معاشی اور عسکری طاقت میں فیصلہ کن موڑ 1707 کا یونین ایکٹ تھا۔ اس نے سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کو ایک سیاسی اکائی بنا دیا تھا۔ اور تاریخ میں پہلی بار ایک اتھارٹی قائم ہوئی تھی جو پورے جزیرے کو کنٹرول کر سکتی تھی۔ اب انگلینڈ کو سکاٹ لینڈ کی افواج سے خطرہ نہیں رہا تھا۔ اور یہ دنیا میں باہر آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
اس سے تین صدیوں کے بعد لندن کو فرانس سے حملے کا خطرہ تو نہیں لیکن اسے یہ پریشانی ضرور ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ الگ ہو گیا تو اس کے معاشی اور عسکری اثرات کیا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور 1707 کی سیاسی یکجائی سے چالیس کروڑ سال پہلی قدرتی یکجائی ہوئی تھی۔ انگلینڈ ایک چھوٹے براعظم کا حصہ تھا جو ایوالونیا تھا۔ یہ سمندر میں شمال کی طرف محوِسفر تھا۔ اس سے ہزاروں کلومیٹر دور سکاٹ لینڈ لورنشیا براعظم کا حصہ تھا اور یہ جنوب کی طرف گامزن تھا۔ ان براعظموں کو سست رفتار تصادم ہوا۔  اس نے ہمالیہ جیسے پہاڑ تو نہیں بنائے لیکن شیویوٹ پہاڑیاں بنا دی تھیں اور یہ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی سرحد ہیں۔ وقت گزرا۔ جنگل، ڈائنوسار اور میمتھ آئے۔ اور پھر آٹھ لاکھ سال قبل انسان نما۔ اور پھر یہ سرد ہو گیا اور انسانوں سے خالی ہو گیا۔ یہ دوبارہ آئے اور گئے۔ یہاں تک کہ یہ اتنا گرم ہو گیا کہ یہاں لمبا عرصہ رہا جا سکتا تھا۔
بارہ ہزار سال قبل سمندروں کی سطح بلند ہونے سے آئرلینڈ الگ جزیرہ بن گیا۔ اور ابھرتے سمندر نے برطانیہ اور مغربی یورپ کو بھی کاٹ دیا۔ برطانیہ ہزاروں جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے 200 کے قریب آباد ہیں۔ یہ پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ کہیں سے بھی چوڑا نہیں۔ اور اپنے کٹے پھٹے ساحل کی وجہ سے اس کا کوئی بھی حصہ ساحل سے 120 کلومیٹر دور نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ یورپ سے الگ ہوا۔ اس جگہ پر انسانی رسائی 325 قبلِ مسیح میں ہوئی جب یونانی مہم جو پائیتھیس نے شمال کا حیران کن سفر کیا اور برطانیہ کے گرد چکر لگایا۔
یہاں پر رومی آئے۔ اینگلو ساکسن، وائکنگ اور نارمن۔ اور سب نے الگ جگہ پر علاقے آباد کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جغرافیائی لحاظ سے تقسیم مشرق اور مغرب کی ہے جو مغرب کی پہاڑیوں اور مشرق کے میدانوں کی ہے۔
مانچسٹر، لیورپول، شیفیلڈ، لیڈز اور نیوکاسل وہ جگہیں تھیں جو صنعتی انقلاب کا گڑھ تھے۔ جنوب میں زیادہ معتدل موسم، فلیٹ دریا اور زمین زراعت کے لئے بہترین ہیں۔ اور دارالحکومت سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ حصہ شمال کے مقابلے میں زیادہ ڈویلپ ہوا ہے۔ سکاٹ لیںڈ میں بھی اس کی آبادی اور صنعت جنوب میں انگلینڈ کی سرحد کے ساتھ ہے۔ زیادہ تر آبادی انگلینڈ میں ہے جو ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ سکاٹ لینڈ کی آبادی پچپن لاکھ، ویلز کی تیس لاکھ اور شمالی آئرلینڈ کی بیس لاکھ ہے۔
انگلینڈ کا جنوب ٹرانسپورٹ کا گڑھ ہے۔ مصروف ترین ائیرپورٹ، ٹرین سٹیشن اور بندرگاہیں یہاں پر ہیں۔ لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے علاوہ تمام بڑے اداروں کے ہیڈکوارٹر ہیں۔ یہ جدید ریاست ہے۔ لیکن اسے یہاں تک پہنچنے میں بہت سا وقت اور بہت سا خون خرابہ لگا۔
(جاری ہے)