Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (76) ۔ خلا ۔ خلائی تنازعے

خلائی مہم جوئی میں قانونی، عسکری اور سیاسی مشکلات درپیش ہیں۔ اور ان کی مثال آرٹیمس معاہدے ہیں۔ خلا میں قوانین کی اس دستاویز پر 31 ممالک دست...


خلائی مہم جوئی میں قانونی، عسکری اور سیاسی مشکلات درپیش ہیں۔ اور ان کی مثال آرٹیمس معاہدے ہیں۔ خلا میں قوانین کی اس دستاویز پر 31 ممالک دستخط کر چکے ہیں لیکن ان میں دو اہم ممالک شامل نہیں۔
روس اور چین کو ان آرٹیکلز پر خاص طور پر اعتراض ہے جس میں یہ اجازت ہے کہ چاند پر “سیفٹی زون” بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ان جگہوں کی حفاظت کیلئے جہاں پر کوئی ملک کام کر رہا ہو گا۔ اقوام کو کہا گیا ہے کہ ایسے زون کا احترام کریں اور اس میں مضر دخل اندازی نہ کریں۔
اگر روسی خلائی جہاز ایسے زون میں لینڈ کرتا ہے جو جاپانی بیس کے ساتھ ہے اور آ کر اپنی ڈرل نکال لیتا ہے۔۔۔ کس قانون کے تحت جاپانی اعتراض کر سکیں گے؟ اور اگر قانون پر اتفاق نہیں تو اس بارے میں کیا کیا جا سکے گا؟
خلا کے بارے میں 1967 میں عالمی معاہدے (Outer Space Treaty) ہوئے تھے جو فرسودہ ہو چکے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ خلا میں قومی دعوے یا قبضہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن سیفٹی زون قومی قبضہ ہی ہے اور اگر نجی ادارے بھی کود پڑیں؟ کتنے زون اور کہاں تک بنائے جائیں گے؟
ان مین کہا گیا تھا کہ چاند کو صرف پرامن مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن پرامن کی تعریف نہیں کی گئی تھی۔ کیا زون کا دفاع ہتھیاروں سے کرنا پرامن کہلائے گا؟
اگر خلا میں منافع بخش کان کنی شروع ہو گئی اور اس وقت تک قانون پر اتفاق نہ ہوا تو یہ آسانی سے اگلا میدان جنگ بھی بن سکتا ہے۔
چاند کے بارے میں 1979 میں معاہدہ (Moon Treaty) خلا کے پرامن استعمال کی کمیٹی نے بنایا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا لیکن روس، امریکہ اور چین نے اس پر دستخط نہیں کئے تو یہ بے کار رہا۔ ابھی کیلئے واحد معاہدہ آؤٹر سپیس ٹریٹی ہی ہے۔
 اور یہ معاہدہ جب کیا گیا تھا، اس وقت خیال تھا کہ زمینی سیاست خلا تک نہیں پہنچے گی۔ یہاں حاصل کرنے کو کچھ نہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی آگے بڑھی اور سوچ بھی اور ساتھ ہی خلائی سیاست کی تھیوریاں بھی۔
پروفیسر ایوریٹ ڈولمن امریکی فضائیہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی مہارت خلائی فوج کی حکمت عملی میں ہے۔ وہ اس کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ٹیرا، جو کہ زمین اور اس کے پاس کی فضا ہے جس میں جہاز جا سکتے ہیں۔ ارتھ سپیس، جو کہ وہ جگہ ہے جہاں سیٹلائیٹ نچلے مدار سے لے کر اس جگہ تک رہ سکتے ہیں جو زمین سے ہم آہنگ ہے۔ لونر سپیس۔ جو کہ یہاں سے لے کر چاند کے مدار تک ہے۔ سولر سپیس جو کہ اس سے آگے نظام شمسی میں ہے۔
اگلی چند دہائیوں میں ارتھ سپیس اہم رہے گی۔ یہاں پر مواصلاتی سیٹلائیٹ ہیں جن کا بڑا مقصد ملٹری کے لئے رابطے ہے۔ یہاں کا کنٹرول کسی ملک کو زمین پر عسکری برتری دلا دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پچھلی صدیوں کی لڑائی زمین اور سمندر پر اہم مقامات لینے کی رہی ہے۔ بیسویں صدی میں اس میں فضائیہ کا اضافہ ہو گیا۔ اکیسویں صدی میں اس کی بلندی میں مزید اضافہ ہو گا۔
زمین کی نگرانی کی اہلیت کے علاوہ، اگر لو ارتھ آربٹ پر کوئی طاقت کنٹرول حاصل کر لیتی ہے تو یہ خلا کی راہداری کی چوکیدار بن سکتی ہے جس کی اجازت کے بغیر آگے سفر نہیں کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ اس کے کمرشل پہلو بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسی ٹیکنالوجی بنائی جا سکے جو کہ خلا سے شمسی توانائی کو مفید توانائی کی صورت میں بدل سکے تو یہ توانائی کا انقلاب ہو گا کیونکہ یہاں سے بلاتعطل قابل اعتبار توانائی لی جا سکے گی۔ ایسی تنصیب یہیں پر ہو گی۔یا پھر اگر شہابیوں سے کان کنی شروع کرنی ہے تو یہاں سے گزرنا ہو گا۔  
اس کے علاوہ خلا میں اہم پانچ مقامات ہیں جہاں زمین اور چاند کی فورس ایک دوسرے کو کینسل کرتی ہے۔ اور یہاں پر آبجیکٹ رکھے جا سکتے ہیں جنہیں ایندھن کی ضرورت نہیں ہو گی۔ چین نے اپنا ایک سیٹلائیٹ یہاں پر رکھا ہے جو چاند کی پرلی طرف پر نظر رکھ سکتا ہے اور یہاں پر لگتا ہے کہ چین چاند پر اڈہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایسے جغرافیائی حقائق مستقبل کی خلائی سیاست کا حصہ ہو سکتے ہیں اور بڑی طاقتیں خلائی جنگ کو بھی اپنی ملٹری بجٹ کا حصہ بنا سکتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اگر معاہدے نہ کئے جا سکے تو لو ارتھ آربٹ ہتھیاروں کا میدان جنگ بن سکتا ہے۔
امریکہ نے 2019 میں خلائی فورس بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اور اس کے بعد روس اور چین نے بھی اپنی ملٹری میں تنظیمی تبدیلیاں کی تھیں۔ ہماری تاریخ کا ہر صفحہ یہ بتاتا ہے کہ ایک بار ایک ملک کچھ کرے تو دوسرا بھی کرے گا اور پھر تیسرا بھی۔۔۔
بیسویں صدی میں نیوکلئیر جنگ کا خطرہ خوفناک تھا۔ خلا کو ہتھیاروں سے لیس کرنا خطرناک تر ہو گا۔
امریکی صدر نے خلائی فوج کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ “خلا میں امریکی بالادستی انتہائی اہم ہے۔ یہ ہمیں دشمنوں کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں مدد کرے گی”۔ روس اور چین بھی ایسے خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ کم طاقتور ممالک بھی۔ لیکن یہ “بڑے تین” خلائی پروگرام میں باقی سب سے آگے ہیں۔
ہائپرسونک میزائل بنائے جا چکے ہیں جو کہ آواز کی رفتار سےبیس گنا رفتار سے  سفر کر سکتے ہیں۔ اپنی سمت اور بلندی تبدیل کر سکتے ہیں۔ اور روایتی دفاع کے لئے انہیں روکنا مشکل ہے۔ اس کے لئے ممالک یہ امکان کو دیکھ رہے ہیں کہ اینٹی ہائپرسونک لیزر خلا میں لگائی جائیں جو کہ زمین کی طرف اشارہ کر رہی ہوں۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو پھر ایسے ہتھیاروں کی ضرورت پڑے گی جو کہ ان لیزر کو نشانہ بنا سکیں اور پھر۔۔۔۔ یہ ہتھیاروں کی نئی دوڑ ہو گی۔
ممالک کو یہ خطرہ بھی ہے کہ ان کے سٹلائیٹ کو نشانہ بنایا جائے گا۔
سیٹلائیٹ صرف فون کال یا ڈش ٹی وی کے لئے نہیں۔ یہ روزمرہ کی زندگی اور جدید جنگوں کے لئے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایک سیٹلائیٹ کو گرا دینے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے موبائل کا جی پی ایس رک جائے اور آپ نقشہ نہ دیکھ سکیں۔ یا آپ کا بینک کارڈ چلنا بند ہو جائے۔ اور جب خبریں دیکھنے کے لئے ٹی وی کھولیں تو سکرین خالی ہو۔ جی پی ایس کے بغیر بحری جہاز اور طیارے بھی مشکل کا شکار ہو جائیں گے۔ اور موسم کی پیشگوئی ۔۔ اس کو تو چھوڑ دیں۔
عسکری مقصد کے لئے نگرانی، جاسوسی اور رابطوں کے لئے سیٹلایٹ استعمال ہوتے ہیں۔ اور ان کو گرانا زمین پر جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ نیوکلئیر جنگ کے وارننگ سسٹم کا انحصار بھی ان پر ہے۔
اور یہ اصل خطرات ہیں۔ اس وقت تک امریکہ، روس، چین، انڈیا اور اسرائیل ایسے سسٹم بنا چکے ہیں جو سیٹلائیٹ گرا سکیں۔ یا انہیں “اندھا” کرنے کے لئے لیزر ایجاد کی جا رہی ہیں جن کی چکاچوند کی وجہ سے یہ رابطہ نہیں کر سکیں گے۔ اور چونکہ اس بارے میں عالمی قوانین موجود نہیں کہ کون کہاں ہو سکتا ہے، دوسرے کے کتنا قریب آ سکتا ہے، کیا کرنے کی اجازت ہے تو غلط فہمی کا امکان بھی زیادہ ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ خلا میں جنگ کبھی بھی حقیقت نہ بنے لیکن جنگی منصوبے “اگر ہو گیا” کے سوال پر بنتے ہیں۔
ہمارا ماضی جھگڑوں کا بھی ہے اور مفاہمت کا بھی۔ تعاون کی بہت سی مثالیں ہیں۔ بیسویں صدی میں عالمی تعاون کی تنظیمیں بھی بنیں اور تنازعات کی روک تھام کے نظام بھی۔ مثلاً، سرد جنگ میں ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان رابطے کے لئے ہاٹ لائن نصب کی ہوئی تا کہ عالمی لیڈر غلط فہمی سے بچنے کے لئے براہ راست رابطہ کر سکیں۔ اور جنگ سے بچا جا سکے۔ کیونکہ یہ بات واضح تھی کہ جنگ میں سب ہی ہارتے ہیں۔ سرد جنگ میں جنگ کا ایکشن ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھا۔ ہو سکتا ہے کہ خلا میں جنگ بھی اس حد تک نہ پہنچے کہ ہماری بقا کو ہی خطرے میں ڈال دے۔ آپس میں اعتماد بنانے اور تنازعات فرو کرنے کے لئے اقدامات لئے جائیں۔
(جاری ہے)