Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (75) ۔ خلا ۔ مصافحہ

پندرہ جولائی 1975 کو سوویت یونین کا سویز ماڈیول خلا میں گیا جبکہ سترہ جولائی کو امریکہ کا اپالو مشن خلا میں پہنچا۔ دونوں خلائی جہاز جب ایک ہ...


پندرہ جولائی 1975 کو سوویت یونین کا سویز ماڈیول خلا میں گیا جبکہ سترہ جولائی کو امریکہ کا اپالو مشن خلا میں پہنچا۔ دونوں خلائی جہاز جب ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر تھے تو انہوں نے پینترے لینے شروع کئے۔ دو گھنٹے بعد امریکی کمانڈر سٹیفورڈ نے ایک سیکنڈ کیلئے انجن فائر کر کے خود کو سویز کی سیدھ میں کر لیا۔ دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر سوویت ریڈار آن تھے اور اپالو نشانے پر تھا۔ 35 کلومیٹر کی دوری پر دو چھوٹے برسٹ ہوئے اور راستہ ٹھیک کیا گیا۔ اپالو کی رفتار کم ہوئی۔ دونوں قریب آ گئے اور پھر سٹیفورڈ نے آواز لگائی “مل گئے”۔ یہی آواز سوویت کمانڈر لیونوف کی تھی۔ ائیرلاک کھلے اور دونوں مشن کمانڈر نے خلا میں پہلا بین الاقوامی مصافحہ کیا۔ سیولکووسکی نے ساٹھ سال پہلے اس کی تھیوری بنائی تھی کہ اس کو کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ساٹھ سال بعد دو عالمی طاقتوں نے خلا میں اس کو حقیقت بنا لیا۔
اس واقعے کو شہہ سرخیاں ملیں۔ خلا میں تعاون کیا جا سکتا تھا۔ کئی ممالک آپس میں اشتراک کر کے کثیر ملکی مواصلاتی روابط بنا چکے تھے۔ ممالک ایک دوسرے سے موسمیاتی ڈیٹا شئیر کرتے ہیں۔ آلودگی کے ہاٹ سپاٹ سے آگاہ کرتے ہیں۔ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی ہی تھی جس نے اینٹارٹیکا کے اوپر اوزون کی تہہ کے سوراخ کی تصدیق کی تھی۔ سویز اور اپالو کا ملاپ علامتی عوامی مظاہرہ تھا کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلا قدم عالمی خلائی سٹیشن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی خلائی سٹیشن (ISS) کا پہلا ٹکڑا روسیوں نے نومبر 1998 میں بھیجا تھا۔ اس سے دو ہفتے بعد امریکی شٹل اگلا ٹکڑا لائی تھی اور اسے جوڑ دیا گیا۔ دو سال میں یہ اس قابل ہو گیا تھا کہ پہلا رہائشی یہاں جا سکے۔ اور 2011 میں اس کی تعمیر مکمل ہو گئی تھی۔ اس کا سائز اتنا ہے جتنا پانچ بیڈروم کے گھر کا ہوتا ہے۔ شاندار نظارے لیکن آمدورفت کے ذرائع ذرا محدود ہیں۔
یہ اس قدر بڑا ہے کہ رات کے آسمان پر ننگی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ 109 میٹر لمبا اور  75 میٹر چوڑا ہے۔ اس میں تین لیبارٹریاں ہیں اور چھ خلاباز رہ سکتے ہیں۔ اب تک 21 ممالک کے 245 مرد و خواتین یہاں جا چکے ہیں۔ ایک وقت میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والے فرینک روبیو ہیں جنہوں نے 371 دن گزارے۔ یہاں پر رہنے کے لئے ایک سلیپنگ بیگ ملتا ہے جس کو دیوار سے باندھا جاتا ہے تا کہ سوتے وقت تیرنے سے بچا جا سکے۔ اور پانی کو ری سائیکل کرنے کا بہت نفیس نظام (Water Recovery System) ہے۔ یہ اس سٹیشن میں 93 فیصد نمی کو ریکور کر لیتا ہے جو خلاباز کی سانس، پسینہ اور دیگر خارج کردہ پانی ہوتا ہے۔ اس کو صاف کیا جاتا ہے اور پھر قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ قابل استعمال پانی یہاں تک پہنچانا خوفناک حد تک مہنگا ہے تو یہ سسٹم بہت ہی مفید ہے۔ لیکن 93 فیصد کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اسے کافی زیادہ بہتر ہونا ہے تا کہ لمبے سفر ممکن ہو سکیں۔
یہاں کی لیبارٹری کے مائیکروگریویٹی ماحول میں پیچیدہ کرسٹل سٹرکچر اگائے جا سکتے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر میڈیکل علاج کے کام آ سکتے ہیں۔ روبوٹ آرم ٹیکنالوجی کو زمین پر کئی صورتوں میں ڈھالا جا چکا ہے جس میں سرجری کا استعمال بھی شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلا میں اب صرف حکومتی ادارے ہی نہیں جا رہے۔ نجی کمپنیاں بھی اب اس میں شامل ہیں۔ ایلون مسک کی سپیس ایکس اس میں آگے ہے لیکن دوسرے ادارے بھی اس میدان میں ہیں۔
کئی ممالک اپنے اپنے پروگرام آگے بڑھا رہے ہیں۔ زہرہ، مریخ اور مشتری تک مشن بھیجے جا چکے ہیں۔ زحل کے چاند پر لینڈ کیا جا چکا ہے۔ پلوٹو کے قریب سے گزرا جا چکا ہے۔ لیکن آگے جانے سے پہلے ہم واپس ذرا زمین پر آتے ہیں۔
(جاری ہے)