Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (7) ۔ آسٹریلیا ۔ نئی طاقت

جنگ عظیم آسٹریلیا تک بھی پہنچی۔ انیس فروری 1942 کو جاپانی فضائیہ نے آسٹریلیا میں ڈارون کی بندرگاہ پر تباہ کن حملہ کیا۔ اس میں وہی فوجی دست...


جنگ عظیم آسٹریلیا تک بھی پہنچی۔ انیس فروری 1942 کو جاپانی فضائیہ نے آسٹریلیا میں ڈارون کی بندرگاہ پر تباہ کن حملہ کیا۔ اس میں وہی فوجی دستے استعمال ہوئے تھے جو کہ اس سے دس ہفتے پہلے اس حملے میں جو جاپان نے امریکہ کی پرل ہاربر پر کیا تھا۔
اس سے ایک ماہ قبل جاپان نے نیوگنی پر حملہ کیا تھا۔ اور اس کے شمال پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور آسٹریلیا کے قریب ہے۔ اگر یہ پورا جاپان کے پاس آ جاتا تو یہاں سے آسٹریلیا کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا یا اس کی ناکہ بندی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جاپان کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
امریکہ کے ساتھ آسٹریلیا کا عسکری تعلق مضبوط رہا ہے۔ آسٹریلوی فوج کوریا، ویتنام، پہلی خلیج کی جنگ اور عراق کی جنگ میں لڑے۔ دونوں جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ امریکہ کا ڈارون میں فوجی اڈہ ہے جہاں ڈھائی ہزار فوجی تعینات ہیں جو کہ چین سے مقابلے کے لئے ہیں۔
 اور یہ آسٹریلیا کا مخمصہ ہے۔
چین ابھرتی طاقت ہے۔ اگر امریکہ اور چین میں تلخی بڑھتی ہے تو اس کا اثر آسٹریلیا پر براہ راست پڑھ سکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میں اضافہ زیادہ ہوا ہے۔ جب امریکی فوج اور بحریہ کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ چین امریکہ اور اتحادیوں کے لئے طویل مدت میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس پر چین خاموش نہیں رہا۔ اس نے پاپوا نیوگنی کے ڈارو جزیر پر ایک بہت بڑا کامپلکس بنانا شروع کر دیا جو کہ “مچھیروں” کے لئے ہے۔ یہ آسٹریلیا سے صرف دو سو کلومیٹر دور ہے اور یہاں مچھلیاں خاص نہیں ہوتیں۔  لیکن بحری جنگی جہازوں کے لئے اچھا پڑاؤ ہے۔ اور اس وجہ سے آسٹریلیا کو قومی سلامتی کے لئے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات پر خاص نظر رکھنی ہے۔
آسٹریلیا کو یہ معلوم ہے کہ کم از کم اس صدی کے وسط تک چین عسکری لحاظ سے امریکہ سے پیچھے رہے گا۔ لیکن سرد جنگ کے مقابلے میں اس بار فرق یہ ہے کہ چین معاشی لحاظ سے تیزرفتار ترقی کر رہا ہے۔ آسٹریلیا کو یہاں پر انتخاب کرنا ہو گا۔
چین کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے معاشی مفاد، دفاعی حکمت عملی اور سفارت کاری میں  مشکل فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں۔ چین آسٹریلیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اور تجارت میں اتار چڑھاؤ سیاسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ چودہ لاکھ چینی سالانہ چھٹیاں گزارنے اور تفریح کیلئے آسٹریلیا آتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بیرون ملک سے آنے والے طلبا میں سے تیس فیصد چینی ہیں۔ چین آسٹریلیا سے زرعی برآمدات کا ایک تہائی خریدتا ہے۔ جو یا بڑے گوشت کے علاوہ لوہا، گیس، کوئلہ خریدنے کی بڑی منڈی ہے۔ لیکن علاقے میں چین کا پھیلتا اثرورسوخ آسٹریلیا سے ہم آہنگ نہیں۔
چین ایسے علاقے کو توسیع دے رہا ہے جہاں پر اپنے حریفوں کا داخلہ بند کر سکے۔ اس کے لئے جزیرے بھی بنا رہا ہے۔ آسٹریلیا کو تشویش ہے کہ اس کا دعویٰ مزید پھیل کر اس کی سمت آ سکتا ہے۔ یہ بانڈا سمندر اور پاپوا نیوگنی کے ساحل ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کی قومی یادداشت میں جاپان کے حملے کی یاد نقش ہے۔ اس وجہ سے چین کی یہ پیشقدمی اسے کھٹکتی ہے۔
آسٹریلیا چین کو ساوتھ چائنہ سمندر میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی کوشش ہے کہ اس سے جنوب میں اس کا اثر محدود رہے۔
اور یہ لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ آسٹریلیا بحرالکاہل کے جزائر کو امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ جبکہ چین اپنی امداد اور قرض بڑھا رہا ہے۔
اپریل 2020 میں کووڈ کے وقت آسٹریلیا کی فضائیہ کا طیارہ مدد لے کر وناٹو کے جزیرے پر جا رہا تھا جب اسے رن وے پر چینی طیارہ نظر آیا جو پہلے سے کووڈ سے نمٹنے کے لئے امداد لے کر رن وے پر کھڑا تھا۔ اگرچہ اسے لینڈ کرنے کی اجازت مل گئی لیکن آسٹریلیا کا طیارہ واپس گھر مڑنا آیا۔ اس بارے میں بحث ہوتی رہی کہ لینڈ کرنا محفوظ تھا یا نہیں لیکن اصل نکتہ یہ تھا کہ چین پہلے سے ہی زمین پر موجود تھا۔
ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اثر کا مطلب رسائی ہوتا ہے۔ اور چین کو مچھلیوں کے علاقوں میں اور اس کے بحری جہازوں کو بندرگاہوں میں رسائی درکار ہے۔ زیرسمندر کھدائی کا امکان ہے اور اس کے علاوہ اقوام متحدہ یا دیگر عالمی فورم پر ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ چین کئی افریقی ممالک کو اپنے زیرِاثر کر چکا ہے۔ اور اس کی نظر بحرالکاہل پر بھی ہے۔ 2019    میں امریکہ اور آسٹریلیا کی بھرپور کوشش کے باوجود سولومون جزائر اور کریباٹی نے تائیوان سے تعلقات منقطع کر لئے تھے۔
(جاری ہے)