Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (6) ۔ آسٹریلیا ۔ دفاع

آسٹریلیا دنیا کے خوش قسمت اور امیر ممالک میں سے ہے اور رہے گا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں قدرتی وسائل ہیں۔ وہ چیزیں ہیں جن کی دنیا کو ضرورت ہ...


آسٹریلیا دنیا کے خوش قسمت اور امیر ممالک میں سے ہے اور رہے گا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں قدرتی وسائل ہیں۔ وہ چیزیں ہیں جن کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اون، گوشت، گندم، مشروبات میں عالمی لیڈر ہے۔ یورینیم کے دنیا کے ایک چوتھائی ذخائر ہیں۔ جست اور سیسے کے دنیا کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں۔ سونا، چاندی اور ٹنکسٹن بڑی مقدار میں ہیں۔ کوئلے کی بڑی پیداوار ہے۔
آسٹریلیا اس سے آگاہ ہے کہ فوسل فیول دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔ اور یہاں کے جنگلات میں ہونے والی بڑی آتشزدگی کی ایک وجہ پانی کی قلت اور گلوبل وارمنگ تھی۔ چار جنوری 2020 کو سڈنی کا درجہ حرارت 48.9 ڈگری ینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
اگر موسمیاتی تبدیلی کے ماڈل درست ہیں تو آسٹریلیا کو سخت گرمی، قحط اور جنگلات کی آگ کا سامنا ہو گا جو یہاں پر رہنا مزید مشکل کریں گے۔ لوگ شہروں کا رخ زیادہ کریں گے اور شہروں پر دباؤ زیادہ ہو گا۔ اور یہ آسٹریلیا کا چیلنج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توانائی تک رسائی آسٹریلیا کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آنے والے سالوں میں اس کا ایک بڑا ذریعہ کوئلہ رہے گا۔ جبکہ آسٹریلیا کے جغرافیے اور جگہ کی وجہ سے توانائی اس کی قومی سلامتی کے معاملات کے ساتھ منسلک ہے۔
معاشی لحاظ سے بھی جدید آسٹریلیا کا اپنی جگہ سے تعلق زیادہ ہو رہا ہے۔ اس کے سیاست دان خود کو ایشیا پیسفک کا حصہ کہتے ہیں۔ لیکن اس کے ہمسائے اگرچہ اس کی عزت تو کرتے ہیں اسے اپنا حصہ خوشدلی سے قبول نہیں کرتے۔ اور قریبی ہمسائیوں سے آگے جایا جائے تو علاقے میں طاقتور ممالک ہیں جو کہ اس کے ممکنہ حریف اور حلیف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹریلیا کا فوکس شمال اور مشرق کی طرف ہے۔ جنوبی چائنہ سمندر سے نیچے فلپائن اور انڈونیشیا ہیں اور پھر ان کے بعدپاپوا نیوگنی۔ مشرق میں فجی اور وناٹو جیسے جزائر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹریلیا پر حملہ آور ہونا ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ہے۔ اور اگر کوئی دشمن فوج شمالی علاقوں میں وارد ہو جائے تو وہ سڈنی سے 3200 کلومیٹر دور ہو گی۔
لیکن اس کا خطرہ بحری ناکہ بندی کا ہے۔ اس کی تجارت شمال کی تنگ راہداریوں سے ہوتی ہے جو کہ تنازعات کی وجہ سے بند ہو سکتی ہین۔ ان میں ملاکا، سنڈا اور لومبوک کی آبنائیں ہیں۔ ملاکا کی تنگ راہداری سے دنیا کی ایک تہائی تجارت ہوتی ہے اور سالانہ اسی ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں۔ اگر یہ بند ہو جائیں تو متبادل راستے بہت لمبے ہوں گے۔
اور اگر آسٹریلیا کی بحری ناکہ بندی ہو جائے تو یہاں جلد توانائی کا بحران آ جائے گا۔ یہ دو مہینے کا تیل کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ اور ایک وقت مین تین ہفتے کی سپلائی ٹینکروں پر اس تک آ رہی ہوتی ہے۔
آسٹریلیا کی دفاعی حکمت عملی کا ایک جزوی فوکس اس پر ہے۔ اس کے پاس آبدوزیں اور بحری جنگی جہاز ہیں جو کہ سمندر پر تجارتی قافلوں کی حفاظت کر سکیں اور طیارے ہیں جو کہ سمندر میں دور تک جا سکیں۔
شمالی آسٹریلیا میں چھ فضائی اڈے ہیں۔ تین میں ہر وقت عملہ رہتا ہے جبکہ تین ایمرجنسی کے لئے ہیں۔ آسٹریلیا کو اگر نصف میں تقسیم کیا جائے تو شمالی نصف میں دس فیصد سے کم آبادی ہے۔ تھیوری یہ ہے کہ آسٹریلیا کی حکمت عملی یہ ہے کہ اگر شمال سے اس پر بڑا حملہ ہو جائے تو یہ شمال کا حصہ چھوڑ دے گا اور جنوب کے آباد علاقوں کا دفاع کرے گا۔
اس کا سائز اتنا بڑا ہے کہ اس سب کی نگرانی کے لئے بحریہ رکھنا مشکل ہے۔ اور اپنے دفاع کے لئے اس نے سفارت کاری پر توجہ دی ہے۔ اس کی ایک نگاہ اس پر رہتی ہے کہ کون طاقتور ہے۔ جب یہ طاقت برطانیہ کے پاس تھی تو یہ اس کا اہم ترین اتحادی تھا۔ لیکن جب یہ امریکہ کے پاس چلی گئی تو نیا نمبر ون اس کے لئے سیاسی، عسکری اور تزویاتی ترجیح بن گیا۔
دوسری جنگ عظیم اس میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یہ واضح ہو گیا کہ برطانیہ آسٹریلیا کا دفاع نہیں کر سکتا۔ دسمبر 1941 میں آسٹریلیا کی وزیراعظم جان کرٹس نے یہ صاف الفاظ میں “آگے کا کام” کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا۔ “ہمارے برطانیہ کے ساتھ روایتی تعلقات رہے ہیں لیکن اب ہمیں بغیر کسی شرم کے اپنا رخ امریکہ کی طرف کر لینا ہو گا۔ تا کہ اپنے دفاع کی منصوبہ بندی کر سکیں”۔ اسے آسٹریلین کلچر کی صاف گوئی کی خاصیت کہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد امریکی آنے لگے۔ 1943 میں ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی آسٹریلیا میں تھے۔ کوکاکولا، پیزا، برگر، ہالی وڈ کی فلمیں، اور صارف کلچر بھی ساتھ ہی پرتھ اور سڈنی کی بندرگاہوں سے آنے لگا۔
(جاری ہے)