Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (5) ۔ آسٹریلیا ۔ نیا ملک

آج کے آسٹریلیا میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ ہیں۔ تمام ممالک کے لوگ یہاں پر آتے ہیں اور مستقل رہائش اختیار کرتے ہیں۔ ملٹی کلچرل ازم کی حوصلہ ...


آج کے آسٹریلیا میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ ہیں۔ تمام ممالک کے لوگ یہاں پر آتے ہیں اور مستقل رہائش اختیار کرتے ہیں۔ ملٹی کلچرل ازم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پچھلے سال میں دو لاکھ لوگوں کو آسٹریلوی شہریت دی گئی جن کا تعلق دنیا کے دو سو کے قریب ممالک سے تھا۔ لیکن آسٹریلیا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبادکاری اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں میں شروع ہوئی۔ انیسویں صدی میں نئے بحری جہاز ہر سال آتے رہے تھے۔ یہ ہر سال کئی ہزار لوگ ساتھ لاتے تھے۔ یہ سست رفتار لیکن مسلسل اضافہ تھا۔ 1825 میں آبادی پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ 1851 میں یہ بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ ہو گئی تھی۔ اب قیدیوں کی آمد رک چکی تھی اور نئے آنے والے دولت کی تلاش میں آ رہے تھے۔ زیادہ تر برطانیہ سے تھے لیکن چین، امریکہ، اٹلی، جرمنی، پولینڈ اور دوسرے ممالک سے بھی۔ 1870 کی دہائی میں یہ آبادی سترہ لاکھ تک پہنچ گئی۔
ملبورن پہنچنے والوں میں پہلے زیادہ تر نوجوان مرد آئے۔ پھر ہنرمند، تاجر اور پیشہ ور اپنی فیملی کے ساتھ۔
اس نے آسٹریلیا کا کردار تشکیل دیا۔ سخت جان، اتھارٹی کی پرواہ نہ کرنے والے، آزاد ذہن اور ساتھیوں پر بھروسہ رکھنے والے ۔۔۔ کیونکہ ان خاصیتوں کے بغیر گزارا مشکل تھا۔
بیسویں صدی آنے تک آسٹریلیا الگ علاقوں میں بٹا تھا۔ ہر ایک الگ ملک ہی تھا جن کے باقاعدہ تعلقات کم تھے۔ اپنے سیاسی نظام اور معاشی مسائل تھے۔ فاصلے زیادہ تھے۔ آمدورفت محدود تھی۔ آپس کی تجارت سمندر کے راستے ہوتی تھی۔ برطانیہ کا اثر رسوخ تھا۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ٹرین کی پٹڑی بچھنا شروع ہوئی۔ اس نے ساحلی شہروں کو منسلک کیا اور ایک مربوط معیشت بننا ممکن کیا۔ اور یہ اپنے ساتھ یہ خیال لے کر آیا کہ الگ علاقے ملکر فیڈریشن بنائیں۔
اس پر ریفرنڈم 1899 میں ہوئے۔ کچھ آبادیوں نے بھاری اکثریت سے اور کچھ نے بمشکل اکثریت سے سیاسی یکجائی کے حق میں ووٹ دیا۔ پانچ جولائی 1900 کو برطانوی پارلیمنٹ نے کامن ویلتھ آف آسٹریلیا ایکٹ منظور کر لیا اور برطانوی کالونیاں یکم جنوری 1901 سے یکجا ہو کر ایک سیاسی اکائی بن گئیں۔ یہ آزاد ملک نہیں تھا بلکہ خود پر حکومت کرنے والی کالونی تھی۔ (1986 میں اس نے یہ مکمل آزادی آسٹریلیا ایکٹ کے تحت حاصل کی)۔
اس وقت تک آبادی تیس لاکھ ہو چکی تھی۔ اور یہ شہری معاشرہ بن رہا تھا۔ سڈنی اور ملبورن کی آبادی پانچ لاکھ تک ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی آسٹریلوی حکومت نے جو قانون سب سے پہلے منظور کیا وہ امیگریشن محدود کرنے کا قانون تھا۔ اس کے تحت اس جگہ پر آمد یورپیوں تک محدود کر دی گئی۔ (اسے “سفیدفام آسٹریلیا پالیسی” کہا جاتا ہے)۔
نئے قوانین کا نشانہ چین، جاپان اور اندونیشیا سے آنے والے تھے۔
وہائٹ آسٹریلیا پالیسی 1970 کی دہائی تک جاری رہی۔ اس کو آسٹریلیا کے ایشیائی ہمسائے سخت ناپسند کرتے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی آبادی کو اس طرف بلانے کے لئے سفر کے کرایوں میں خصوصی رعایت دی گئی۔ برطانیہ سے آسٹریلیا کا کرایہ 120 پاؤنڈ تھا جو کہ کئی لوگوں کے لئے چھ ماہ کی آمدنی تھی۔ آسٹریلیا کو لوگوں کی ضرورت تھی اور آسٹریلوی حکومت نے برطانوی شہریوں کو پیشکش دی کہ 10 پاؤنڈ کرایہ دے کر یہاں آ کر نئی زندگی شروع کی جا سکتی ہے۔ 1947 سے 1982 کے درمیان پندرہ لاکھ سے زیادہ برطانوی شہری یہاں پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دنیا رفتہ رفتہ بدلی۔ آنے والوں میں یونانی اور اطالوی بھی آئے۔ اور پھر 1956 میں انقلاب کے بعد ہنگری سے آئے۔ 1968 میں چیکوسلواکیہ پر روسی قبضے نے اس آبادی کو یہاں بھیجا۔ پھر مشرق وسطی اور جنوبی امریکہ سے فرار ہونے والے۔ 1970 میں ویت نام سے کشتیوں میں بھاگنے والوں کا ٹھکانہ آسٹریلیا بنا۔ اور 1990 میں یوگوسلاویہ کی جنگ کے متاثرین کے لئے۔
برطانیہ کی مرکزیت کمزور پڑتی گئی۔ کلچر بدلتا گیا۔ اور یہ کثیر قومی معاشرہ بننے لگا۔ اور جدید آسٹریلیا ایسا ہی ہے۔ یہاں کے شہریوں کے آباء کا تعلق 190 ممالک سے ہے۔ باہر سے آنے والے تارکین وطن کے لئے یہ پرکشش اور مقبول جگہ ہے۔
آسٹریلیا نیوی نے 2001 کے بعد مہاجرین اور پناہ گزین کو روکنا شروع کر دیا۔ آنے والوں کی کشتیوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے یا نورو اور مانوس کے جزیروں میں قید کر لیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر واویلا کرتی ہیں لیکن آسٹریلیا میں یہ پالیسی مقبول ہے۔ اور اس کے نتیجے میں آسٹریلیا تک پہنچنے والی کشتیوں کی آمد کم ہو گئی ہے۔
(جاری ہے)