Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (4) ۔ آسٹریلیا ۔ آبادکار

جیمز کک آسٹریلیا میں بوٹنی بے کے مقام پر پہنچے تھے۔ اس جگہ کو برطانیہ نے اپنی جیلوں میں ہو جانے والے رش کو دور کرنے کے لئے چنا۔ ایک ہی تیر ...


جیمز کک آسٹریلیا میں بوٹنی بے کے مقام پر پہنچے تھے۔ اس جگہ کو برطانیہ نے اپنی جیلوں میں ہو جانے والے رش کو دور کرنے کے لئے چنا۔ ایک ہی تیر میں دو شکار ہو جاتے۔ رش بھی کم ہو جاتا اور برطانیہ سے سترہ ہزار کلومیٹر دور دور یونین جیک بھی لہرایا جاتا۔
بحری جہاز تیار ہوئے۔ مجرموں کو اکٹھا کیا گیا۔ سازوسامان لادا گیا۔ تیرہ مئی 1787 کو برطانیہ سے جہاز روانہ ہوئے جو کہ چوبیس جنوری 1788 کو یہاں پہنچ گئے۔ گیارہ جہازوں میں 1500 نفوس سوار تھے۔ 730 مجرم (جن میں 160 خواتین تھیں)۔ جبکہ باقی اپنی مرضی سے آنے والے تھے جس میں اکثریت بحریہ سے منسلک تھے۔
یہ بوٹنی بے پر لنگرانداز ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کے انچارج گورنر آرتھر فلپ نے دو ہفتوں بعد طے کیا یہ کہ جگہ موزوں نہیں اور سب اٹھ کر چند کلومیٹر دور چلے گئے۔ یہ سڈنی کی بندرگاہ تھی۔ یہاں کے ساحل کا تاج برطانیہ کے زیرنگیں ہونے کا اعلان کیا گیا اور تقریر میں نئی آبادی کا اعلان ہوا۔ اس میں گورنر فلپ نے اعلان کیا کہ مقامی آبادی کو تنگ نہ کیا جائے۔ تاہم، مقامی آبادی کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ آنے والے عجیب لوگ اس بار تجارت کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ زمین کے لئے آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کے مقامی ایب اوریجنل ایک قسم کے لوگ نہیں تھے۔ بہت سی قومیتیں تھیں اور بہت سی زبانیں۔ 1788 میں ان کی آبادی ڈھائی سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی۔
نئی آبادیاں سڈنی میں پھیلیں۔ دوسری ملبورن، برسبین اور تسمانیہ میں آباد ہوئی اور پھر ساتھ ہی جنگیں شروع ہوئی جنہیں سرحدی جنگیں (frontier wars) کہا جاتا ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس میں دو ہزار یورپی آبادکار مارے گئے جب کہ اس سے کئی گنا زیادہ ایب اوریجنل۔ یہ افسوسناک باب تھا جس میں نئے آنے والوں نے پہلے سے بسنے والوں کو بمشکل انسان سمجھا تھا۔ ان جنگوں نے مقامی لوگوں، کلچرز، اور زبانوں کا صفایا کر دیا۔ یہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہوتا رہا۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کے آنے تک قتل و غارت تک ختم ہو چکی تھی لیکن مقامی آبادی کو برابری کے حقوق نہیں ملے گے۔ 1910 کے بعد مقامی آبادی کے بچوں کو “اپنے جیسا” بنانے کیلئے ان کی پرورش سرکاری اداروں یا سفید فام خاندانوں میں کی جاتی تھی۔ اس کو 1970 میں روکا گیا۔ اس وقت تک ایک لاکھ بچے اس عمل سے گزر چکے تھے۔
مقامی آبادی کو عام انتخاب میں ووٹ دینے کا حق 1962 میں ملا۔ جبکہ 1967 میں آسٹریلیا کا برابر شہری ہونے کا باقاعدہ درجہ دیا گیا۔
مقامی آبادی کے حقوق پر ریفرنڈم اس کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کی بنیاد پر یہ آئینی ترمیم کی گئی۔ اس میں 93 فیصد آبادی نے ووٹ ڈالے اور ان میں سے 90 فیصد آسٹریلین اس کے حق میں ووٹ دینے والوں میں تھے۔
آج ایب اوریجنل آبادی سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ہوتے ہیں۔ شہری آبادی اور مڈل کلاس میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور جدید آسٹریلیا میں فعال حصہ لے رہے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم کیون رڈ نے 2008 میں رسمی طور پر مقامی آبادی سے روا رکھے جانے جانے والے سلوک پر معافی مانگی۔
ایب اوریجنل آبادی جو کہ 1920 میں گر کر ساٹھ ہزار رہ گئی تھی، اب آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ ان کی سینکڑوں زبانیں تھیں جن میں سے اکثر مٹ گئیں۔ صرف پچاس ہزار لوگ ہیں جو کہ ان میں سے کسی بھی ایک زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔
(جاری ہے)