Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (39) ۔ گریس ۔ مسائل

اکیسویں صدی کے شروع میں گریس میں اولپمکس کی گہماگہمی رہی۔ اور معیشت بھی بڑھ رہی تھی لیکن 2008 کو عالمی اقتصادی بحران نے آن لیا۔ اس نے واضح ...


اکیسویں صدی کے شروع میں گریس میں اولپمکس کی گہماگہمی رہی۔ اور معیشت بھی بڑھ رہی تھی لیکن 2008 کو عالمی اقتصادی بحران نے آن لیا۔ اس نے واضح کیا کہ گریس کی ہر حکومت نے کتنا بھاری قرضہ چڑھا لیا ہے۔ اور اس کے لئے کاغذی شعبدہ بازی دکھائی گئی تھی۔ گریس نے یورو اپنانے کی شرائط پوری کرنے کے لئے اعداد و شمار کا ہیرپھر کیا تھا۔ اور یورو کے ممبران نے اس سے صرفِ نظر کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معیشت زمین بوس ہو گئی اور سڑکوں پر احتجاج ہونے لگے۔ ہڑتالوں کا موسم آیا اور معاشرے میں ایسی معاشی بدحالی آئی جو کئی دہائیوں سے نہیں دیکھی گئی تھی۔ آئی ایم ایف نے قرضہ منظور کیا لیکن ساتھ خرچ کم کرنے اور آمدن بڑھانے کی سخت شرائط تھیں۔ لیکن اس کے ساتھ گریس میں پرانے خوف واپس آ گئے کہ باہر کی دنیا ان پر حاوی ہو رہی ہے اور ملک کو اندرونی طور پر سیاسی بھونچال کا سامنا تھا۔
یورپ سے حالات کشیدہ ہو گئے۔ گریس میں غصہ تھا کہ مشکل وقت میں یورپی یونین ان کی مدد نہیں کر رہا۔ دوسرا بحران پناہ گزینوں کا تھا۔ ان کی لہریں یہاں لینڈ کرتی تھیں۔ گریس اور اٹلی کو یورپ سے شکوہ تھا کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ یورپ کے لئے سرحدی پولیس کا کام کریں لیکن اس کے لئے فنڈ نہیں دیے جا رہے۔
ترکیہ سے گریک جزائر تک سمندر میں چھوٹا اور مشکل سفر کر کے بہت سے لوگ آ رہے تھے۔ ساموس کا جزیرہ ترکیہ اناطولیہ کے ساحل سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ 2015 میں مہاجرین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ تارکین وطن اور پناہ گزین یہاں پہنچے۔ یہ جزیرہ صرف تیرہ کلومیٹر چوڑا اور چوالیس کلومیٹر لمبا ہے۔ اس سال کل ساڑھے آٹھ لاکھ تارکین وطن گریس پہنچے۔ سینکڑوں ایجین سمندر کی لہروں کا لقمہ بن گئے۔ جن میں سے ایک تین سالہ آلان کردی تھا جس کی لاش ساحل سمندر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی تصویر نے دنیا کو جھنجھوڑ دیا کہ تارکین وطن کے بحران کی انسانی قیمت کیا ہے۔
گریس کو اس میں مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ اس کی معیشت برے حال میں تھی۔ یہ جزائر اس قابل نہیں تھے کہ اتنی تعداد میں لوگوں کی آمد برداشت کر سکیں۔ ریاست کے پاس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اور باہری دنیا سے اسے مدد نہیں مل رہی تھی۔ 2016 میں اس کے لئے کچھ بہتری آئی جب یورپی یونین نے ترکیہ کو رشوت دی کہ وہ اس بحران کو نمٹنے میں مدد کرے۔ تارکین وطن سمندر میں نہ اتریں اور اگر کسی کو واپس بھیجا جائے تو اسے قبول کیا جائے۔ یہ چند ارب ڈالر تھے جو نقد دیے گئے۔ اس کے علاوہ ترکیہ کے شہریوں کو یورپ کا ویزہ کے بغیر سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس سے آنے والوں کی تعداد پہلے سے بہت گر گئی لیکن دسیوں ہزار لوگ کیمپوں میں ہیں اور روزانہ ہی آمد ہوتی رہتی ہے۔ اب یورپی ممالک کا تارکین وطن کے بارے میں رویہ سخت ہو چکا ہے اور کیمپوں میں قید لوگوں کے لئے آگے کی منزل نہیں۔ اس دوران گریس کے کئی جزائر جیل کا روپ اختیار کر لیں گے۔
اور یہ گریس اور ترکیہ کے درمیان تنازعے کی ایک اور وجہ ہے۔ گریس الزام لگاتا ہے کہ ترکیہ مہاجرین کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا اور ان کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ گریس غیرمستحکم ہو۔ ترکیہ اس سے انکار کرتا ہے۔
گریس اور ترکیہ کے درمیان کے کئی تنازعات قدیم ہیں۔ ترکوں کے تصور میں ان کا آپس کا بڑا تصادم تین ہزار سال پہلے ٹرائے کے محاصرے کے وقت ہوا تھا جب گریک نے ایک گھوڑے پر شرط لگائی تھی اور جیت گئے تھے۔ کیا یہ جنگ اصل میں ہوئی تھی؟ کیا ٹروجن ہارس کی کہانی واقعی میں ہے؟ یہ تاریخ کی بحث ہے لیکن زیادہ اہم آپس میں قدیم دشمنی کا تصور ہے۔ لیکن تاریخ جس جنگ کے شواہد دیتی ہے، یہ 1071 میں ہوئی تھی۔ اس میں بازنطینی گریک کا مقابلہ سلجوق ترک سے ہوا تھا۔ اس میں بازنطینی ہارے تھے۔ اور پھر بالآخر قسطنطنیہ سے ہاتھ دھونا پڑے گے۔ گریک جو تاریخ پڑھتے ہیں، اس میں انہیں ترک قبضے کے نیچے چار سو سال کی ذلت اٹھانا پڑی تھی۔ اور جدید دور میں ترک قبضے کے خلاف گریس کی جنگِ آزادی اور گریک قبضے کے خلاف ترکوں کی  1919 سے 1922 تک جاری رہنے والی جنگِ آزادی تازہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکیہ کے موجودہ نیشنسلٹ صدر اردگان نے گریس کے خوف دوچند کر دیے ہیں۔ ترکیہ کے سرکاری ٹی وی پر نقشوں میں عثمانی سلطنت کے دور کے علاقے دکھائے جاتے ہیں جن کو موجودہ ترکیہ کا حصہ بنانے کیلئے جدید ترکیہ تیار ہو گا۔ اس میں کئی جزائر ہیں جو گریس کے پاس ہیں۔ ایجین سمندر کا علاقہ ہے اور کچھ علاقہ گریس کی مین لینڈ کا ہے۔
گریس کے لئے یہ قابلِ قبول نہیں۔ اگرچہ زیادہ امکان یہی ہے کہ ایسا اپنی ملکی آبادی کے لئے کہا جاتا ہے اور سنجیدہ نہیں۔ لیکن “تاریخ کی ناانصافی کو درست کرنے” کا نعرہ گریس کے عسکری منصوبہ بندوں کو رات کو جگائے رکھتا ہو گا اور اس نے یہ آسان کیا ہے کہ گریس اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ دفاعی اخراجات کی طرف منتقل کر دے۔
اور گریس کا دفاعی بجٹ اس کی معیشت کے لئے پہلے سے ہی بڑا سردرد ہے۔ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ 2010 کے بحران کے بعد اس کو واپس راہ پر لانے کے لئے دفاعی بجٹ میں بھاری تخفیف کی گئی تھی۔   
(جاری ہے)