Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (38) ۔ گریس ۔ سیاست

پہلی جنگ عظیم کے بعد پندرہ لاکھ لوگ ترکی سے نقل مکانی کر کے گریس آئے تھے۔ نئے آنے والوں کے لئے بھی زندگی مشکل تھی۔ زیادہ تر غربت اور برے ح...


پہلی جنگ عظیم کے بعد پندرہ لاکھ لوگ ترکی سے نقل مکانی کر کے گریس آئے تھے۔ نئے آنے والوں کے لئے بھی زندگی مشکل تھی۔ زیادہ تر غربت اور برے حال میں تھے۔ یہ “نیو گریس” کی آبادیاں تھیں۔ اور آنے والے سالوں میں یہاں کمیونسٹ پارٹی کی حمایت زوروں پر رہی۔ اور اس نے فوجی بغاوتوں اور جابرانہ حکومتوں میں حصہ ڈالا۔
اگلی دو دہائیوں میں عدم استحکام رہا اور فوجی حکومت رہی۔ پھر دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔
اس وقت جنرل میٹاکسز حکمران تھے۔ وہ گریس کو نیوٹرل رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اٹلی نے دو بار حملہ کیا۔ اس میں اسے ناکامی ہوئی لیکن جرمنوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ جنگ کے سال اس نے جرمن، اطالوی اور بلغاریہ کی افواج کا جابرانہ قبضہ دیکھا۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے ملک کا اندرون قابضین کے کنٹرول میں نہیں آیا۔ اور گریک مزاحمت کو پہاڑی زمین پر جڑ مل گئی۔ یہاں سے گوریلا جنگ لڑی گئی۔ لیکن خوراک کی کمی وجہ سے دسیوں ہزار لوگ فاقہ کشی سے فوت ہوئے۔ ستر ہزار کو سزائے موت دی گئی جبکہ سینکڑوں دیہات تباہ کئے گئے تاکہ مزاحمت کی تحریک دبائی جا سکے۔
اکتوبر 1944 میں جرمن چلے گئے اور برٹش آ گئے۔ ملک میں جشن منایا گیا لیکن یہ چند ہفتے رہےا۔ دسمبر میں دارالحکومت میں پھر گولیاں چل رہی تھیں۔ گریک خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی۔
اس کی جڑیں بادشاہ اور اینٹی بادشاہ کی تقسیم کی تھیں۔ دو الگ مزاحمتی گروپ تھے۔ ایک کمیونسٹ EAM-ELAS جبکہ ایک رائٹ ونگ جو کہ EDES تھا۔ جرمنوں کے چلے جانے کے بعد کوئی گروپ دوسرے کو کنٹرول دینے کو تیار نہیں تھا۔
انتخابات 1946 میں ہوئے۔ بادشاہ کے حامی جیت گئے۔ کمیونسٹ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بڑے پیمانے پر خانہ جنگی چھڑ گئی۔ اس نے مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ سوویت یہاں نہ پہنچ جائیں۔
برطانیہ نے 1947 میں تسلیم کر لیا کہ وہ گریس کا دفاع نہیں کر سکتے اور انہوں نے اسے امریکہ کے سپرد کر دیا۔ امریکہ نے کمیونسٹ کے خلاف حکومت کی مدد کرنا شروع کر دی۔ پچھلی صدیوں کی طرح ہی ایک بار پھر بیرونی طاقت یہاں پر روسیوں کو روکنا چاہ رہی تھی۔
یوگوسلاویہ نے کمییونسٹ گوریلا جنگجوؤں کی مدد 1949 میں روک دی اور یوگوسلاویہ کی سرحد بند کر دی۔ یہ باغیوں کے لئے بڑا دھچکا تھا۔ اکتوبر میں زیادہ تر البانیہ بھاگ چکے تھے اور جنگ ختم ہون گئی۔ اندازہ ہے کہ اس جنگ میں پچاس ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہوئی۔ یاد رہے کہ ملک کی کل آبادی اسی لاکھ تھی۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں تباہ حال گریس داخل ہوا تھا جس کی آبادی منقسم تھی۔ اور فوج خود کو ملک کے دفاع تک محدود رکھنے کی قائل نہیں تھی۔ بلکہ بڑا مسئلہ یہ تھا ملک کی سیاسی اور نظریاتی محافظ بھی سمجھتی تھی۔ معیشت تباہ حال تھی۔ خانہ جنگی ہوئی تھی اور گریس باقی یورپ سے پیچھے رہتا جا رہا تھا، لیکن فوج کی توجہ جمہوری اداروں کو اپنا زیرِنگیں کرنے پر تھی۔ جبکہ ملکی آبادی مغربی یورپی کلچر سے روشناس ہو رہی تھی۔
مئی 1967 میں انتخابات ہوئے۔ توقع تھی کہ سنٹر یونین پارٹی کامیاب ہو جائے گی۔ اس کا منشور فوج کو لگام ڈالنا بھی تھا۔ انتخابات قریب آئے تو فوج کو تشویش ہونے لگی۔ اکیس اپریل کو جب ایتھنز کے لوگ اٹھے تو سڑکوں پر ٹینک تھے۔ ریڈیو پر فوجی ترانے تھے۔ اس میں کسی کو حیرت نہیں ہوئی جب ریڈیو پر اعلان ہوا کہ “بہادر مسلح افواج نے ملک کو بچانے کی خاطر اقتدار سنبھال لیا ہے”۔ حیرت صرف اس کی تھی کہ یہ مارشل لاء جنرلوں کی طرف سے نہیں لگایا گیا تھا۔ بلکہ نچلے درجے کے افسران کی وجہ سے تھا۔
کرنلوں نے اہم سیاستدانوں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی گرفتار کر لیا۔ دس ہزار لوگ گرفتار ہوئے۔ گریس ناٹو کا ممبر رہا۔ اس کی لوکیشن اہم تھی۔
جمہوریت یہاں پر 1974 میں آئی۔ گریس نے یورپی اقتصادی کمیٹی (جو بعد میں یورپی یونین ہوئی) میں 1981 میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس رکنیت نے اس کی معیشت پر بہت مثبت اثر ڈالا۔ بیسویں صدی کا باقی وقت گریس کے لئے خوشحالی کا تھا۔ لیکن پھر اکیسویں صدی آ گئی جب جغرافیہ اور سیاست نے اسے یورپی یونین کے بڑے دو بحرانوں کے درمیان میں لا کھڑا کیا۔
(جاری ہے)